بعد از ٹرمپ کینیڈا

آج کل کینیڈا کے رہنمائوں’ وزیروں اور سیاستدانوں کے بیانات اور اعلانات میں دکھ اور تکلیف کی وہ لہر دیکھی جا رہی ہے جو تاریخ میں کبھی پہلے نظر نہیں آئی۔ امریکا اور کینیڈا کی بہترین ہمسائیگی ایک طرح سے ضرب المثل بن چکی تھی لیکن اب اس دیوار میں ایسے رخنے پڑ رہے ہیں جو کبھی سوچے بھی نہیں جا سکتے تھے۔

کینیڈا کا صدمہ پہلو میں لگنے والا غیر متوقع زخم ہے۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کا بہترین اتحادی، صدیوں سے جنگوں میں اس کا شریک اور طویل ترین سرحد والا ہمسایہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے، چنانچہ ہر کینیڈین اپنی تذلیل محسوس کرتے ہوئے اس زخم کی شدت محسوس کر رہا ہے۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ کینیڈا کو بطور ملک اپنی بقا کے بارے میں بیانات دینے اور بطور قوم اپنا وجود قائم رکھنے کے عزم کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ عزم اپنی جگہ لیکن اگر ٹرمپ اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹتے تو کیا یہ کینیڈا کے لیے آسان ہوگا؟ اس کی دفاعی صلاحیت کا امریکی طاقت سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ دنیا کی طویل ترین سرحد کے ہوتے ہوئے یہ ممکن بھی نہیں ہو گا۔ اگر ٹرمپ اپنی طاقت کے اظہار پر تل جائیں، اگرچہ اس کے امکانات بہت ہی کم ہیں تو انہیں روکنے کی واحد سبیل امریکا کے اندر ہی سے ہوسکے گی’ یعنی اسے امریکی نظام اور ادارے ہی روک سکیں گے، صرف کینیڈا اسے باز نہیں رکھ سکے گا۔ کینیڈا کو پہلی بار محسوس ہو رہا ہے کہ اس کی زمین، اس کے وسائل، اس کے ملک پر لالچی نظریں ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پچھلے دنوں کہا بھی تھا کہ کینیڈا کی معیشت برباد کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس طرح اسے 51ویں ریاست بنانے میں ٹرمپ کو آسانی ہو گی۔

بہت سے ممالک ٹرمپ کے عزائم سے خوفزدہ ہیں لیکن سب سے بڑا خطرہ کینیڈا کو ہے۔ اس کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ پہلی بار یہ نظر آ رہا ہے کہ امریکی عوام اور کینیڈین عوام یکساں طور پر ٹرمپ سے ناخوش بلکہ خائف ہیں ورنہ ایک ملک کی سیاست کا دوسرے ملک کے لوگوں پر اثر نہیں پڑتا تھا۔ کسی بھی امریکی پارٹی کی حکومت اور اقتدار پر چہروں کی تبدیلی سے کینیڈین عوام کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ امریکی صدر کی پالیسیوں سے امریکی اور کینیڈین، دونوں طرف کے عوام کی ملازمتوں اور روزگار کو یکساں خطرہ ہے۔ کینیڈین وزیراعظم کے روز بیانات سامنے آ رہے ہیں جن میں نرم الفاظ کا چنائو اور لہجہ ملائم رکھنے کی بھرپور کوشش نظر آتی ہے۔ دیگرکینیڈین وزرا اپنے کانٹے دار بیانات چھپانے کی اتنی کوشش نہیں کرتے۔ اس تجارتی جنگ اور امپورٹ ٹیکس عائد کرنے کی جنگ کے بیچ ٹروڈو اور ٹرمپ کے درمیان چند دن قبل فون پر بات ہوئی۔ ٹرمپ نے اس کال کو ”کچھ دوستانہ” کہا اور ٹروڈو نے ”رنگا رنگ” بتایا لیکن اخبارات لکھ رہے ہیں کہ کال تند وتیز اور گرما گرم باتوں پر مشتمل تھی۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بائوم سے بھی صدر ٹرمپ کی بات ہوئی، جس میں سابقہ معاہدے بھی زیر گفتگو آئے۔ بہرحال اس بات چیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ٹیکس اور پابندیاں جو چار مارچ سے نافذ ہونی تھیں، دو اپریل تک موخر کردی گئی ہیں۔یعنی کم وبیش ایک ماہ کے لیے یہ تلوار ہٹا دی گئی ہے لیکن بدستور لٹک رہی ہے۔

اگرچہ یہ ٹیرف نافذ نہیں ہوئے لیکن ان کے اثرات دکھائی دینا شروع ہو چکے ہیں۔ کینیڈا کے لیے یہ ایک خوفناک خواب جیسا ہو گا لیکن بے شمار امریکی بھی اس کی براہ راست اور بالواسطہ زد میں آئیں گے۔ ایک تبدیلی جو کینیڈا میں ٹرمپ کے اعلانات کے بعد سے پیدا ہو رہی ہے وہ کینیڈین حب الوطنی اور نیشنل ازم کی لہر ہے۔ اسٹورز وغیرہ سے امریکی مصنوعات ہٹائی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ کینیڈین مصنوعات کو دی جارہی ہے یا دیگر ممالک کی درآمدی اشیا کو، جن میں میکسیکو سرفہرست ہے۔ کینیڈین شہری کہتے نظر آتے ہیں کہ ٹیرف لگے یا نہ لگے، ہمیں خوشی ہے کہ امریکی مصنوعات سے نجات مل رہی ہے اور مقامی صنعتوں اور کاروبارکو فروغ مل رہا ہے۔ ٹرمپ کے کینیڈا کو امریکا کی ریاست بنانے کی تجویز کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ مونٹریال کے ایک کیفے نے اپنے مینو میں کافی کی قسم ”امیریکانو” کا نام بدل کر ”کینیڈیانو” رکھ دیا ہے۔ کینیڈا میں یہ کہا جا رہا ہے کہ باقاعدہ ٹیرف نافذ ہونے کے انتظار اور غیر یقینی صورت کی بجائے ابھی سے کام شروع کریں اور امریکی مصنوعات مزید مت فروخت کریں۔ اگر یہ تجارتی جنگ آگے بڑھی تو وطنیت اور مقاطعے کی یہ تحریک بھی آگے بڑھے گی۔

میں نے کہا کہ اگر یہ تجارتی جنگ باقاعدہ شروع ہو گئی اور ٹیرف کا دو طرفہ نفاذ ہو گیا تو یہ دونوں طرف کے لوگوں کے لیے ایک بھیانک خواب جیسا ہوگا۔ ابھی صرف اعلانات اور گرما گرمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نقصانات شروع ہو گئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگر صرف 25فیصد ٹیرف، جس کا اعلان کیا گیا ہے، نافذ ہو گیا تو دس لاکھ کے قریب کینیڈین اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں کینیڈین کمپنیاں امریکی درآمد کنندگان کے لیے مال تیار کرتی ہیں۔ لاگت زیادہ ہو جانے سے یہ امریکی آرڈر نہیں ملیں گے اور کینیڈین برآمد کنندگان کام بند کرنے یا کم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسی لیے کینیڈین کمپنیاں ڈری ہوئی ہیں۔ اگرچہ کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ حکومت اس صورت میں لوگوں کو اسی طرح ریلیف دے گی جیسے کووڈ 19کے زمانے میں دیا گیا تھا، لیکن یہ اضطراب معاشرے میں ہر سطح پر نمودار ہو رہا ہے۔ بے یقینی روزگار اور کاوربار کے لیے مہلک ترین عنصر ہے اور یہ بے یقینی بعد از ٹرمپ کینیڈا میں اس وقت پیر پھیلا چکی ہے۔ امریکا کی جگہ نئے گاہک ڈھونڈنے میں بہت زیادہ کاروباری نقصان متوقع ہے اور اس میں وقت بھی لگے گا۔ اس بے چینی کا اثر اسٹاک مارکیٹ پر بھی پڑ رہا ہے۔

اس کا دوسرا رخ امریکی عوام کے نقصانات ہیں۔ ان سب معاملات سے قبل سیر وسیاحت کے لیے کینیڈینز کی پہلی ترجیح امریکا ہوتا تھا۔ صرف 2024ء میں ساڑھے بیس ارب ڈالر امریکی ٹورازم میں محض کینیڈینز کی خرچ کردہ رقم ہے۔ ان اعلانات کے بعد کینیڈینز امریکا جانے سے بھی گریز کر رہے ہیں اور ہوٹل بکنگ میں شدید کمی دکھائی دے رہی ہے۔ کینیڈا کچھ امریکی ریاستوں کو بجلی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اب کینیڈین صوبہ اونٹاریو کے سربراہ ڈگلس رابرٹ فورڈ نے جو ایک کاروباری ہونے کے ساتھ سیاستدان بھی ہیں، بجلی کی امریکا کو ایکسپورٹ پر 25فیصد ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر یہ اعلان عمل میں آیا تو اس سے پندرہ لاکھ امریکی گھر متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکی عوام پر پڑنے والے اثرات کا ایک مظہر مشہور امریکی چین اسٹور ‘ٹارگٹ’ کے سی ای او برائن کورنیل کا انٹرویو ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ کون کون سی مصنوعات امریکا میں مہنگی ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ امریکا اور کینیڈا دونوں ہی ممالک میں کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI ) بہت زیادہ ہے اور عام لوگ مہنگائی سے پسے ہوئے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں کہ آج کل وہ لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے جنہوں نے امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ ڈیمو کریٹس تو شروع ہی سے ٹرمپ کو شدید ناپسند کرتے تھے لیکن جو ریپبلکن ہیں یا وہ سوچنے سمجھنے والے لوگ جو بائیڈن پالیسیوں سے شدید ناخوش تھے اور اس بنیاد پر انہوں نے کملا ہیرس کو ووٹ نہیں دیا تھا، اب وہ کیا سوچ رہے ہوں گے؟ وہ مسلمان جو اسرائیل کی مسلسل ظالمانہ پشت پناہی کے ردعمل میں ٹرمپ کی طرف گئے تھے، انہوں نے کیا سوچا ہو گا جب ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کو مستقل بے دخل کر کے غزہ کو امریکی کالونی بنا لینے کی تجویز پیش کی؟ کیا اب ان کے ذہن میں یہ لہر نہیں سرسراتی ہو گی کہ اس سے تو بہتر تھا کہ کملا ہیرس ہی آ جاتی، ہیر س کا دور کیسا بھی ہوتا، ٹرمپ سے تو بہتر ہی ہوتا!