صحبتِ صالح ترا صالح کند

انسان جن کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے وہ بہت جلد ان کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور غیر ارادی طورپر بھی وہ ان کی کچھ عادت ضرور قبول کرتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ مکمل طورپر ان کی عادت واخلاق اپنا لیتا ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے: ”أَلْمَرْئُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہ” (ترمذی وقال: حسن) ترجمہ: ”انسان اپنے احباب کے دین پر ہوتا ہے۔” سب جانتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی پہچان اس کے ہم نشینوں سے بخوبی ہو جاتی ہے
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند

انسان کو ان حضرات کے کردار وعمل کو دیکھ کر اپنی غلطیاں معلوم ہوتی ہیں اور اصلاح کی فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنی نالائقی اور اعمال صالحہ میں کوتاہی کا احساس ہوتا ہے۔ چوتھا فائدہ یہ ہے انسان جب تک ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، پھر رفتہ رفتہ گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ پانچواں فائدہ یہ ہے یہ صالحین اپنے ہم نشین کی رازداری کرتے ہیں اور اس کے بھید کسی کو نہیں بتاتے اور اس کی غیبت نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے دُعا کرتے ہیں۔ چھٹا فائدہ یہ ہے جب انسان اللہ کے لیے ان حضرات سے محبت کرتا ہے تو وہ خود اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میری محبت واجب ہوگئی ان لوگوں کے لیے جو میرے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔”

پس یہ چند فوائد ہم نے بطور مثال ذکر کردیے ہیں، ورنہ بے شمار فوائد ہیں اور بے انتہا برکات ہیں جو نیک اور صالح حضرات کی صحبت ومجالس سے نصیب ہوتی ہیں۔ شیطانی دھوکا اور زمینی حقیقت: لوگوں کو شیطان یوں دھوکا دیتا ہے کہ تم بہت گناہ گار ہو اللہ والوں کے ساتھ بیٹھنے کے قابل نہیں۔ اس طرح وہ علماء اور صلحاء سے دور رہتے ہیں اور فاسق وفاجر لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ان کے دلوں پر گناہوں کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے اور روحانی بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں، بلکہ بہت سے تو ایمان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں، لہٰذا کتنے ہی بڑے گناہ گار کیوں نہ ہو۔ علماء اور صلحاء کی صحبت میں کچھ وقت ضرور گزارا کرو اور ان سے محبت رکھو، ان سے دُعا کی درخواست کرو اور ہفتے میں ایک بار تو ضرور ان کی خدمت میں جایا کرو۔ انسان جس کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے، دوستی اور تعلق رکھتا ہے، ان کے اخلاق وعادات غیر محسوس طریقے سے اس کے اندر آجاتے ہیں۔ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے لیے دین دار، خدا ترس اور بااخلاق دوستوں کا انتخاب کرے اور جن کے اندر مذکورہ صفات نظر آئیں ان کی طرف خود دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور یہ دوستی صرف اللہ کی رضا اور محبت حاصل کرنے کی نیت سے ہو۔ حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں میں نے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میری محبت واجب ہوگئی ان لوگوں کے لیے جو میرے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میرے ہی لیے مل کر بیٹھتے ہیں اور میرے ہی لیے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میرے ہی لیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔” (رواہ مالک کذا فی المشکوٰة، ص 462)

خوب سمجھ لیجیے! جو دوستی دنیاوی منافع اور مصلحتوں کے لیے ہوگی، وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ جیسے ہی غرضی دوست کو اپنی منفعت اور مصلحت ختم ہوتی نظر آئے گی، وہ بالکل بے تعلق ہوجائے گا، جبکہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا کے حصول کے لیے جو دوستی کی جائے گی وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ دنیا میں بھی دونوں دوست ایک دوسرے کے ہمدرد اور خیرخواہ رہیں گے۔ ایک دوسرے کی عزت وآبرو اور جان ومال کے محافظ بنیں گے اور قیامت کے دن بھی ان کی دوستی قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو نور کے منبروں پر جگہ عطا فرمائے گا۔ وہ گھبراہٹ اور بے چینی سے اس دن محفوظ رہیں گے جب سب لوگ نہایت حواس باختہ اور غمزدہ ہوں گے۔6ـ تین چیزوں کی حفاظت : (1) نگاہ کی حفاظت: کسی بے محل جگہ پر نظر نہ پڑے، حتیٰ کہ کہتے ہیں بیوی پر بھی شہوت کی نگاہ نہ پڑے، اجنبی پر تو بہت دور کی بات ہے۔ اسی طرح خلافِ شرع کوئی کھیل کود نہ کریں۔ فحش تصویریں نہ دیکھیں۔ فحش لٹریچر اور اخلاق سوز ناول اور ڈائجسٹ نہ پڑھیں۔ ٹی وی وی سی آر اور فلمیں نہ دیکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص اس کے اللہ کے خوف کی وجہ سے بچا رہے تو حق تعالیٰ اس کو ایسا نور ایمان نصیب فرماتے ہیں جس کی حلاوت ولذت قلب میں محسوس کرے گا۔” (معجم الکبیر: 10362)

(2)زبان کی حفاظت: جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: ”روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے، اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے فحش یا جہالت کی بات… کسی کا مذاق اُڑانا یا لڑائی جھگڑا وغیرہ… نہ کرے۔ اگر کوئی دوسرا کرنے لگے تو کہے کہ میرا روزہ ہے۔”یعنی دوسرے کے ابتدا کرنے پر بھی اس سے نہ اُلجھے۔ اگر وہ سمجھنے والا ہے تو کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ اگر وہ بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو اپنے دل کو سمجھادے کہ تیرا روزہ ہے۔ تجھے ایسی لغو بات کا جواب دینا مناسب نہیں۔ بالخصوص غیبت اور جھوٹ سے توبہت ہی پرہیز کرے۔
(3)کان کی حفاظت:ہر مکروہ چیز سے جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے۔ اس کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے، جیسے گانا سننا، غیبت سننا، ساز سننا وغیرہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔” ایک اور ارشاد گرامی ہے: ”گانا دلوں میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے۔” (سنن کبریٰ للبیھقی: 21007)

ان کے علاوہ بقیہ اعضا کو بھی ہر طرح کے غلط کاموں، مثلاً: چوری، ڈاکہ، حرام اور مشتبہ چیزوں کا استعمال وغیرہ سے بچانا۔ جو شخص روزہ رکھ کر حرام سے افطار کرتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی مرض کے لیے دوا کرتا ہے، مگر اس میں تھوڑا زہر بھی ملادیتا ہے۔مدعا یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے بعد اپنی اس محنت کو ضائع ہونے سے بچانے کی بہت زیادہ فکر اور اہتمام کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا روزہ قبول بھی ہے یا نہیں؟ اس پر مستزاد ہم لایعنی، حرام یا گناہ کے کاموں میں لگے رہے تو ایسے روزے کا کیا فائدہ؟ لہٰذا روزہ رکھیں بھی اور اس کا ثواب میں بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ان باتوں کا خود بھی خواہ اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اور اپنی اولاد اور ماتحتوں کو بھی اس نہج پر لانا ضروری ہے۔