نائب وزیر اعظم ووزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ کی صورتحال پر مسلم امہ کو متفقہ موقف اپنانے کا مشورہ دیتے ہوئے مستقل جنگ بندی کیلئے پاکستان کی تجاویز پیش کر دیں۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ فلسطین کی موجودہ صورتحال مسلم دنیا کی فوری ردعمل کی طلب گار ہے۔ جنگ کے دوبارہ آغاز اور جبر کی اسرائیلی خواہش کو متحد ہو کر روکنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم ہر اس تجویز کو رد کرے جو فلسطینی کو بے گھر کرنے کیلئے ہو، او آئی سی کسی بھی ایسے ایجنڈے کیلئے متحد ہوجائے۔ فلسطینی عوام ہمدردی کے بیانات نہیں بلکہ مضبوط اقدامات چاہتے ہیں، ہم اپنے الفاظ نہیں بلکہ اقدامات سے پہچانے جائیں گے۔ اجلاس میں او آئی سی وزرائے خارجہ نے متفقہ طور پر عرب منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیر نو کی حمایت کی اور فلسطینی عوام کو جبراً غزہ سے بے دخل کرنے کے کسی بھی بیان کو مسترد کر دیا۔
فلسطین، القدس اور غزہ کے معاملے پر پوری امت مسلمہ اور اسلامی دنیا کے اتفاق کا مظاہرہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام کے حق میں دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے امت مسلمہ کو متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ اب صرف بیانات اور قراردادوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور فلسطینی عوام مسلم دنیا سے ہمدردی کے بیانات کی بجائے عملی اقدامات اور مدد و نصرت چاہتے ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 48 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے، عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، اسپتال اور تجارتی مراکز ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ ایسے میں مسلم امہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور سفارتی اور عملی اقدامات کرے بلکہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بھی اختیار کرے۔
او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز اہمیت کی حامل ہیں۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے تین نکاتی جنگ بندی معاہدے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے، غزہ کی طرح غرب اردن میں بھی اسرائیلی جارحیت کا فی الفوری خاتمہ کیا جائے اور فلسطینیوں کیلئے انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجلاس میں عرب لیگ کے اس منصوبے کی حمایت کی گئی جو غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کی بحالی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ کے مستقبل کے متعلق اس مضحکہ خیز، اشتعال انگیز، بچگانہ اور مکمل اسرائیلی خواہشات پر مشتمل یکطرفہ پلان کے جواب میں مصر نے تیار کیا تھا، یہ ایک جامع، منصفانہ، زمینی اور تاریخی حقائق سے ہم آہنگ اور فرزندان زمین فلسطینیوں کے آدرشوں اور امنگوں کا عکاس منصوبہ ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرکے یہاں اپنی اور اپنے لے پالک اسرائیل کی خیالی جنت بسانے کا ”بچگانہ خواب” پیش کیا تھا جس میں فلسطینیوں کو محض ایک اجنبی کی طرح ہی رہنے کی اجازت شامل تھی، جبکہ مصر کے تیار کردہ عرب دنیا کے اس پلان میں غزہ کو فلسطینی ریاست کے اہم جز اور شہر کے طور پر رکھا گیا ہے اور اس میں فلسطینی باشندوں کے لازوال مالکانہ حقوق کی حمایت کی گئی ہے۔ مصر کے اس پلان کو گزشتہ اجلاس میں عرب لیگ نے متفقہ طور پر اپنالیا اور اسے پوری عرب دنیا کا متفقہ پلان قرار دیا۔ عرب لیگ کی تائید کے بعد یہ امر ضروری تھا کہ اگلے مرحلے میں اسے پوری مسلم دنیا سے بھی منظور کروایا جائے۔ او آئی سی کے اس اہم اجلاس میں یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوگیا اور مصر کے تیار کردہ اس عرب پلان کو غزہ کے مستقبل کیلئے پوری مسلم دنیا کے متفقہ منصوبے کا درجہ حاصل ہے، جس پر او آئی سی اور تمام مسلم ممالک مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ٹرمپ کے مضحکہ خیز پلان کے جواب میں مسلم دنیا کا یہ اتفاق و اتحاد قابل تحسین اور امید افزا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ محض زبانی کلامی اتحاد اہل فلسطین کے درد کی دوا ہرگز نہیں ہے۔ اہل فلسطین اپنی ہی سرزمین پر دہائیوں سے قابض صہیونی گروپ کی جارحیت کا شکار ہیں، جبکہ اب تک مسلم دنیا کی جانب سے مذمتی بیانات کے سوا اسرائیلی قبضے سے ان کی نجات کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ پاکستان کا یہ موقف مبنی بر حق ہے کہ فلسطینی عوام کو زبانی ہمدردی نہیں بلکہ حقیقی مدد اور عملی اقدام درکار ہے۔ اسرائیل جس تسلسل سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ جما رہا ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، اس کا مقابلہ صرف بیانات سے نہیں کیا جا سکتا۔ او آئی سی اور مسلم دنیا کو اب ایسے اقدامات کی طرف جانا ہوگا، جن کا دباؤ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک محسوس کرسکیں۔ سفارتی سطح پر دو ٹوک اور متفقہ موقف اپنانا، اسرائیل کے حامیوں کا بائیکاٹ، فلسطینیوں کیلئے خصوصی فنڈز کا قیام اور عالمی فورمز پر اسرائیل کیخلاف موثر مہم چلانا ایسے اقدامات ہو سکتے ہیں جو عملی طور پر اثر انداز ہو سکیں۔
عرب لیگ اور او آئی سی کے حالیہ اجلاسوں نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلم دنیا کم از کم اس معاملے پر متفق ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق ملنا چاہیے، تاہم اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کیخلاف موثر حکمت عملی بنانے کیلئے مزید اتحاد اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی سطح پر فلسطین کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے دی گئی تجاویز پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمان ہیں اور مسلم امہ کے لیے بھی ایک مؤثر لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔ وقت کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا خوف اور مصلحت کی چادر اتار کر فلسطین کے حق میں مضبوط اقدامات کرے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، اقوام متحدہ اور دیگر اداروں پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اس مسئلے کا فوری اور مستقل حل نکالیں۔ اگر مسلم دنیا نے اب بھی تاخیر کی تو وہ وقت دور نہیں جب فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو جائے گا اور خاکم بدہن روئے زمین پر فلسطین نامی کوئی بستی بھی نہیں رہے گی۔