درآمدات وبرآمدات اور قرض کا بوجھ

وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی ایک سالہ حکومتی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سال میں برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں، مہنگائی کم ہوئی ہے ۔ قرضوں سے جان چھڑائیں گے ۔برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کا تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں عالمی معاشی منظر نامے کو مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ جلد ہی ہماری برآمدات امریکا میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ متاثر ہوںگی۔ امریکا نے میکسیکو، چین، کینیڈا کی اشیاء پر ٹیکس (ٹیرف) لگا دیا ہے اور اب 2اپریل سے بھارت پر بھی ٹیکس لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا میں مہنگائی بڑھے گی۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو درآمدی اشیاء کے استعمال میں کمی آ جاتی ہے۔ اس کا پاکستان کی برآمدات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

پی بی ایس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2024ء کے دوران امریکا کے لیے کی گئی برآمدات کی مالیت 8کھرب 7ارب روپے تھی، پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کا حصہ 17.25فیصد بنتا ہے اور پاکستان کی 20اہم ممالک کی برآمدی لسٹ میں امریکا اکثر سرفہرست رہتا ہے۔ اس کے بعد دیگر ممالک ہیں کوئی 10فیصد، کوئی 5فیصد ۔وغیرہ وغیرہ۔ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران یعنی جولائی تا دسمبر 2023ء کل برآمدی مالیت تھی 7کھرب 41ارب 69کروڑ روپے ۔اس طرح واقعی برآمدات میں اضافہ نظر آ رہا ہے، یعنی 66ارب روپے سے زائد کا اضافہ۔ اس میں امریکا کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اب آیندہ پاکستانی حکام ان خدشات کو مدنظر رکھ کر پاکستان کی تجارتی پالیسی کو اس طرح ترتیب دیں کہ امریکا میں ٹیکس لگنے سے پاکستانی برآمدات متاثر نہ ہوں۔اس کے لیے ”دیگر ممالک کی طرف دیکھو ” کی پالیسی اپنانی پڑے گی۔مثلاً افریقہ کی طرف دیکھو، مشرق بعید کی طرف دیکھو۔ بلکہ اب تو ‘وا خان کوریڈور’ اور” نوآزاد وسطی ایشیائی ممالک کی طرف دیکھو ”کی پالیسی وضع کرنا پڑے گی۔

بہرحال قرض سے خلاصی کا دعویٰ جب کیا جاسکتا ہے جب ملکی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی معیشت ترقی کر رہی ہو۔اصل صورت حال کچھ اس طرح کی بنتی نظر آ رہی ہے کیونکہ ہم نے قرض پر مبنی معیشت کا روپ دھار لیا ہے۔ملک کی کمر پر 70ہزار ارب روپے سے زائد کا قرض لد چکا ہے۔ بات شاید اتنی قابل تشویش نہ ہوتی اگر یہ قرض ہمارے کل خام قومی پیداوار کے 65فیصد کے برابرنہ ہوگیا ہوتا ۔ اب عالمی معاشی صورت حال جس جانب جا رہی ہے، اس میں یہ نظر آرہا ہے کہ عالمی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہوگا اور یہ بات پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائی کو مشکل بنا دے گی۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے چھڑنے والی عالمی تجارتی جنگ کا پہلا اثر یہ ہوگا کہ عالمی معاشی سست روی پیدا ہوگی۔ اس کا پاکستان پر اثر پڑے گا کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے کارخانے بند ہیں، کاروبار مندی کا شکار ہے۔ معاشی ترقی کی شرح 2سے 3فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کساد بازاری چل رہی ہے اور اس سے ہم قرض ادا کرنے کی صلاحیت کو کم سے کم کر رہے ہوں گے۔

دنیا بھر کے تقریباً تمام ملک قرض لیتے ہیں لیکن اپنی عوام کی ضرورت اور قرض ادائی کی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر قرض لیا جاتا ہے۔پاکستان کو قرض دینے والے یہاں کی معیشت کو اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے قرض دیتے وقت مرضی کا شرح سود اور اپنی مرضی کی شرطیں عائد کرکے قرض دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشی ترقی میں قرض نے کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اب ہر سال کتنی معاشی ترقی ہوتی رہی ہے۔ 2007ء میں 8فیصد تھی ، اس کے بعد کبھی 4فیصد اور کبھی 2فیصد۔ بس اسی طرح کا معاملہ چل رہا ہے۔ دیگر کئی ملکوں کے قرض اور معاشی ترقی کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہاں اس قرض کو ترقیاتی پروگرام میں استعمال کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا ۔اس لیے قرض عوام پر بوجھ بن چکا ہے۔
پاکستان میں ہر شخص 3لاکھ روپے سے زائد کا مقروض بن چکا ہے۔ حالانکہ عوام کی اکثریت روز کماتی ہے روز خرچ کر دیتی ہے اور جس دن غریب کو مزدوری نہ ملے تو کسی کے ہاں جفاکشی کسی کے ہاں فاقہ کشی۔ پاکستان کے لیے کہا جاتا ہے کہ قرض لینا ضروری ہے کیونکہ قرض لے کر معاشی ترقی کی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی حاصل کی جاتی ہے۔ جدید اختراعات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔مگر یہاں تو قرض ملک کے لیے بلائے جاں بنا ہوا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کم ازکم 5سالہ معاشی وصنعتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قرض لے کر ترقی یافتہ ممالک سے تیکنیکی ترقی، جدید اختراعات اور جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ملک میں بیروزگاری بڑھے گی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی اب اس بات کا نام ہے کہ انسانی ہاتھ کم سے کم استعمال ہوں۔ اس کے علاوہ قرض ادا کرنے کی صلاحیت اس وقت ماند پڑ جاتی ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہو اور امن ومان کی صورت حال بہتر نہ ہو۔

پاکستان کو سب سے زیادہ نائن الیون کے بعد ایسی معاشی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا کہ کارخانے بند ہونے لگے۔ ملک میں بدامنی کے باعث غیرملکی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا یا بالکل ہی کم ہو کر رہ گیا۔پاکستان کو ایک عشرے سے موسمیاتی تبدیلی نے بھی دبوچ رکھا ہے۔ 2022ء کا سیلاب، ہندوستان کی طرف سے سیلابی پانی آکر کھیتوں کو بھی بہا کر لے جاتا ہے۔ اب تازہ خطرہ عالمی معاشی صورت حال کے ممکنہ منفی اثرات کا ہے ۔اس لیے حکومت پاکستان کو قرضوں پر انحصار کم سے کم کرنے،درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے پر توجہ دینا ہوگی جو کہ معاشی ترقی کا حقیقی راستہ ہے۔