تیرا ٹرمپ، میرا ٹرمپ

امریکی صدر ٹرمپ نے پارلیمنٹ سے خطاب میں امریکا کو مطلوب ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ امریکا سمیت پوری دنیا بالخصوص پاکستانیوں کے لئے بھی یہ حیران کن خبر تھی۔ امریکی صدر کے انکشاف پر حسب روایت طرفین سے ردعمل، تبصرے تجزیئے کئے گئے۔

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ردعمل دیتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور اور سراہنے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے پاکستان کے عزم و جدوجہد اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ یاد رہے امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے اور ٹرمپ کے پارلیمنٹ خطاب سے چند لمحے پہلے تک تحریک انصاف کے حامیوں کے نزدیک ٹرمپ اک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھے۔ ان کے نزدیک ٹرمپ ان کے لیڈر عمران خان کے انتہائی قریبی دوست ہیں اورپوری دنیا میں ٹرمپ ہی ایسی واحد شخصیت ہیں جو عمران خان کوقید و بند کی صعوبتوں سے نکال باہر کریں گے۔

تحریک انصاف کے حامی صحافیوں، اینکرز اور یوٹیوبرز نے گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ دعوے کئے تھے کہ ٹرمپ صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطاب میں پاکستانی حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لئے حکم نامہ جاری فرمائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے حامیوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دوسری جانب ان کے سیاسی حریف مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی کے حمایتی افراد نے ٹرمپ کی مخالفت میں ووٹ کاسٹ کئے۔ جب پی ٹی آئی حامیوں کو یہ طعنہ دیا جاتا کہ آپ کل تک امریکا مردہ باد اور ایبسلوٹلی ناٹ کے نعرے بلند کرتے تھے اور آج انہی امریکی حکام سے اُمیدیں وابستہ کیوں کر رہے ہیں تو انکا سادہ ساجواب ہوتا تھا کہ عمران خان کو امریکا نے اقتدار سے باہر کیا ہے اب امریکا ہی خان صاحب کو واپس اقتدار میں لائیں گے۔ یعنی ایک طرف نام نہاد امریکی مداخلت مردہ باد دوسری جانب امریکی مداخلت زندہ باد۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پی ٹی آئی قیادت نے جس طرز پر ٹرمپ کی انتخابی مہم چلائی اور ٹرمپ کے حامی سیاستدانوں سے عمران خان کے حق میں ٹویٹ کروائے اور پھر جس طرز پر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ان بیانات کا بیانیہ بنایا کہ کسی بھی وقت ٹرمپ بہادر صدر زرداری یا وزیراعظم شہباز شریف کو فون کرے گا اور حکومت کو اڈیالہ جیل کے دروازے کھول کر عمران خان کو پھولوں کے ہار پہنا کر رہاکرناپڑے گا۔ یقینی طور پر پاکستانی حکومت شدید دبائو اور سہمی سہمی نظر آرہی تھی۔

امریکی پارلیمنٹ سے ٹرمپ کے خطاب نے 180زاویہ سے معروضی حالات بدل کر رکھ دیے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے حامی خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے لڈیاں اور دھمالیں ڈالتے دکھائی دے رہے ہیں بالکل ایسے ہی جس طرح عمران خان اور ٹرمپ کی ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے حامیوں نے نچ نچ کے گھنگڑوں توڑ ڈالے تھے۔ ٹرمپ خطاب کے بعد تحریک انصاف کے حامی یوٹرن مارتے ہوئے ٹرمپ کوگالیوں سے نوازتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اگر ٹرمپ سرکار عمران خان کے حق میں چھوٹا سا بیان جاری کردے تو طرفین کی سیاسی جماعتوں نے 180ڈگری زاویہ کے یوٹرن مارلینے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دینا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے امریکا کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار قرار دے دینا ہے اور ٹرمپ کو نوبل پرائز کے لئے نامزد کرنے کے لئے مہم چلادینی ہے۔ کل تک پی ٹی آئی حامیوں کو ٹرمپ اپنا اپنا لگتا تھا اور آج مسلم لیگ ن والوں کیلئے ٹرمپ میرا جگر میرا جانی بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانی احساس کمتری کا شکار ہیں اور کیوں نہ ہوں جب پاکستانیوں کی معیشت کا دار ومدار ہی امریکا، یورپ اور مالیاتی اداروں کی مرہون منت ہے۔

ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ امریکا بہادر کوریاست پاکستان یاکسی پاکستانی فرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف امریکی مفاد عزیز ہے۔ امریکا کو اپنا مفاد عزیز ہوتو ان کے لیے غیر منتخب غیر جمہوری ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف بھی بہت عزیز ہوتے ہیں لیکن ان کے مفاد کے برخلاف چلنے والے منتخب نمائندے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کسی صورت پسندیدہ نہیں ہو سکتے۔ بہرحال آج کے معروضی حالات میں ہم پاکستانیوں کو اپنا اپنا ٹرمپ عزیز ہے جو ان کے حق اور مفاد میں بیان جاری کر دے۔