بشار دور کا افسانوی کردار ’قیصر‘ منظر عام پر آگیا (ابوصوفیہ چترالی)

بشارالاسد کی جیلوں میں تشدد سے ہلاک ہونے والے قیدیوں کی 55 ہزار تصاویر بنانے والے فوٹوگرافر ’قیصر‘ نے پہلی بار منظر پر آکر اپنی شناخت ظاہر کی ہے اور بشارالاسد کے ہاتھوں گرفتار شدگان پر ہونے والے ظلم و ستم کی ہولناک تفصیلات بتائی ہیں۔

چند روز سے عرب سوشل میڈیا پر ’قیصر‘ کا بہت چرچا ہے۔ آیئے جانتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ کس منصب پر تھا؟ اس نے بشاری جیلوں میں کیسے ہولناک مناظر دیکھے؟ انہیں کیسے دستاویزی شکل دی؟ پھر یہ دستاویزات جیل سے باہر لانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ الجزیرہ نے ’قیصر‘ کا تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جس کے مختلف کلپس عرب شوسل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیں۔
’قیصر‘ ایک فرضی نام ہے۔ یہ دراصل بشار الاسد کی حکومت کا ایک سینئر افسر ہے۔ اصل نام فرید ندا المذہان ہے جس کا تعلق درعا شہر سے ہے اور وہ بشار الاسد کی ملٹری کورٹ میں پولیس کا اعلیٰ افسر تھا۔ اس نے بشار الاسد کے عقوبت خانوں اور جیلوں میں مارے جانے والے ہزاروں شامی قیدیوں کی تصاویر کا سب سے بڑا انکشاف کیا ہے۔ یہ سب کچھ دستاویزی اور تصویری ثبوتوں کے ساتھ قیصر کے پاس محفوظ ہے۔ اس نے الجزیرہ کے ایک خصوصی پروگرام ’للقصة بقیة‘ میں اپنی شناخت پہلی بار ظاہر کی۔ المذہان نے ان تصاویر کو جمع کرنے اور انہیں جیل سے باہر اور بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے کی گئی کوششوں کے بارے میں دل دہلا دینے والی تفصیلات بیان کیں، ان تصاویر نے ’قیصر‘ کی فائلوں کی بنیاد بنائی۔ قیصر شامی فوجی پولیس میں فورینک فوٹوگرافر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتا رہا، جو بعد میں شام سے فرار ہو گیا اور اپنے ساتھ تقریباً 55,000 تصاویر لے جانے میں کامیاب ہوا جو 2011ء اور 2013ء کے درمیان لی گئی تھیں۔
ان میں سب سے اہم تصاویر وہ ہیں جو شامی حکومت کی جیلوں میں تشدد اور ہلاکتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ باریک بینی سے مشاہدے اور جدید تحقیقاتی عمل سے گزارنے کے بعد ان تصاویر کی تصدیق کی گئی، ان کا تجزیہ اور درجہ بندی کی گئی اور انہیں قانونی اداروں اور عدالتوں کی لیباریٹریز میں جانچا گیا۔ یہ دستاویزات اب ’قیصر فائل‘ کہلاتی ہیں۔ ان دستاویزات نے شامی خاندانوں کو اپنے عزیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مدد فراہم کی، جنہیں شامی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے گرفتار کیا یا جو جبری طور پر غائب ہو گئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان دستاویزات کو استعمال کیا تاکہ وہ شام میں حراستی حالات پر رپورٹ تیار کر سکیں اور اقوام متحدہ اور عدالتوں کے لیے خاص طور پر جرمنی کے کوبلنز میں الخطیب کے مقدمے کے لیے۔ ان تصاویر کو بین الاقوامی عدالتوں میں بطور ثبوت استعمال کیا گیا، جن میں اقوام متحدہ اور مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کا تجزیہ کیا۔ ان تصویروں نے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو یہ جاننے میں مدد دی کہ ان کے پیارے کہاں ہیں اور ان کا کیا حال ہے۔ بشار حکومت کے زیر اہتمام ظلم و ستم کے اس دستاویزی مواد کی بنیاد پر ’قیصر‘ نے عالمی عدالتوں میں شامی حکام کے خلاف قانونی کارروائی کی بنیاد فراہم کی۔ ان تصویروں کے ذریعے اسدی حکومت کے جنگی جرائم کا پردہ فاش کیا گیا اور ان کے بارے میں عالمی برادری کو آگاہ کیا گیا۔ ’قیصر‘ کا یہ عمل نہ صرف شامی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قدم تھا بلکہ یہ دنیا بھر میں ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی ایک اہم کوشش بھی تھی۔ ان تصاویر کی مدد سے عالمی عدالتوں میں شامی حکام کے خلاف قانونی کارروائیاں کی گئی ہیں، جس سے انصاف کی امیدیں پیدا ہوئیں۔
واضح رہے کہ قیصر کو صرف بڑے قیدیوں کی تصویریں بنانے کی اجازت تھی جبکہ خواتین اور بچوں کی تصاویر ان میں شامل نہیں ہیں۔ ان میں سے 28,000 تصاویر ان قیدیوں کی ہیں جو حکومت کے زیر حراست عقوبت کدوں میں مرے۔ ہر لاش کی چار تصاویر لی گئیں اور 6,786 ایسے افراد کی تفصیلات ریکارڈ کی گئیں جو جیل میں مرے۔ یہ تصاویر دو مقامات پر لی گئیں: دمشق کے اسپتال ’مستشفیٰ تشرین‘ کے مردہ خانہ اور اسپتال ’المستشفی العسکری601‘ کے گیراج میں، جو دمشق کے فرانسیسی ہائی اسکول کے پیچھے اور صدراتی محل کے قریب واقع ہے۔ یہ تمام لاشیں 24 مختلف حراستی مقامات سے آئی تھیں، لیکن 80 فیصد سے زیادہ لاشیں فوجی انٹیلی جنس کے شعبہ 215 اور 227 سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان 6,786 افراد میں سے 2,936 افراد انتہائی کمزوری اور قحط سے متاثر تھے۔ جو بھوک سے مرتے وقت بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے۔ 2,769 افراد پر تشدد کے نشان تھے اور 455 افراد کی آنکھیں نکالی گئی تھیں۔
ایک فائل جس میں 4,000 تصاویر شامل ہیں ان افراد کی ہے جو بیرونِ جیل قتل ہونے والے شہری ہیں، اس کا عنوان ’دہشت گرد‘ رکھا گیا ہے۔ اس فائل میں بزرگوں اور بچوں کی تصاویر شامل ہیں جنہیں سر کے پچھلے حصے میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے ان میں سے 28,707 تصاویر کا تجزیہ کیا اور تمام دستیاب معلومات کے موازنے کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ کم از کم 6,786 قیدی ایسے تھے جو حراست کے دوران یا حراستی مرکز سے فوجی اسپتال منتقل کیے جانے کے بعد ہلاک ہو گئے۔ تنظیم نے سابقہ قیدیوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ انٹرویوز بھی کیے ہیں۔ اس نے ان افراد کی شناخت کے لیے کئی کیسز کا جائزہ لیا، جن کے چہرے ان تصاویر میں پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس طرح صرف 27 افراد کی شناخت ہوسکی، جن میں سے 8 کے نام ظاہر کیے گئے (کئی خاندانوں نے انتقامی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر کرنے سے انکار کیا)۔ ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپورٹ 86 صفحات پر مشتمل تھی اور دسمبر 2015ء میں شائع ہوئی۔
سینکڑوں افراد نے جن کے عزیز لاپتہ ہو گئے تھے ’قیصر‘ کی طرف سے لی گئی تصاویر کے ذریعے اپنے پیاروں کی شناخت کی اور ان کی موت کے بارے میں آگاہ ہوئے۔ ان میں سے کچھ افراد کی موت کی تصدیق بعد میں 2018ء میں بشاری حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے وفات کے نوٹس سے ہوئی۔12 جنوری 2014ء کو فائل مکمل کر کے 11 یورپی وزرائے خارجہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ فرانس کے وزیر خارجہ اور بین الاقوامی ترقی لوران فابیس نے اجلاس سے باہر نکلتے ہوئے ایک ساتھی کو بتایا: ’یہ بہت خوفناک ہے، نہایت نفرت انگیز اور ہمیں ان تمام دستاویزات کے بارے میں حقیقت جاننے پر کام کرنا چاہیے جو انتہائی اہمیت کی حامل ہیں‘۔ ایک اور وزیر نے کہا: یہ تصاویر ہم نے آخری بار یہودیوں کی نسل کشی کے دوران دیکھی تھیں۔ جس طرح سے شامی حکومت اپنے جرائم کو دستاویز کرتی ہے، یہ ہمیں 70 سال پیچھے لے جاتی ہے۔‘ فرانسیسی سفارتکاری کے مطابق :ہزاروں خوفناک تصاویر، جنہیں مختلف ماہرین نے دستاویزی شکل دی ہے، ان لاشوں کو دکھاتی ہیں جو تشدد اور بھوک کا شکار ہو کر جیلوں میں ہلاک ہوئے، یہ بشار الاسد کے نظام کی منظم درندگی کی گواہی دیتی ہیں۔‘پھر ’قیصر فائل‘کی بنیاد پر پیرس کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے بشار الاسد کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ جنوری 2015ء میں بشار الاسد نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ فوجی فوٹوگرافر موجود نہیں ہے: یہ تصاویر کس نے لی؟ یہ شخص کون ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔‘ بہرحال انسانیت کے خلاف اتنے بڑے ثبوتوں کے باوجود عالمی سطح پر بشار الاسد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
قتل اور تصویروں کے احکام
’قیصر‘ نے کہا کہ بشارالاسد کے نظام کے جرائم کی دستاویزات اور تصویروں کے احکام اعلیٰ حکومتی سطح سے آتے تھے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ قتل واقعی میں انجام دیا گیا ہے اور حکام بالا کو یقین ہوجائے کہ نچلے درجے کے افسران یا جیل حکام نے کہیں رشوت یا تعلقات کی بنیاد پر کسی قیدی کو زندہ تو نہیں چھوڑا ہے۔ اس لیے موت کی تصدیق کے لیے لاشوں کی باقاعدگی سے تصاویر بنائی جاتی تھیں۔ قیصر نے بتایا کہ سیکورٹی ایجنسیوں کے رہنماو¿ں نے اسد کے نظام کے لیے اپنی وفاداری کو اس طریقے سے ظاہر کیا کہ وہ قیدیوں کی لاشوں کی تصاویر لیتے تھے۔ المذہان کے مطابق، پہلی بار لاشوں کی تصویریں 2011ء میں مارچ کے مہینے میں دمشق کے فوجی اسپتال ’مستشفیٰ تشرین العسکری‘ کے مردہ خانے سے لی گئیں، جو درعا کے احتجاجی مظاہرین کی تھیں۔ قیصر نے یہ بھی بتایا کہ جب بھی کسی شخص کو گرفتار کر کے قید خانوں میں داخل کیا جاتا تو اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پر ایک مخصوص نمبر لگایا جاتا تھا۔

قیصر نے انکشاف کیا کہ قید خانوں میں قیدیوں کی لاشوں کی تصویریں لینے کے لیے مختص جگہیں ’مستشفی تشرین العسکری‘ اور’مستشفی حرستا‘ کے مردہ خانے تھیں اور ساتھ ہی ایک تیسرے فوجی اسپتال ’مستشفی المزة العسکری‘ میں گاڑیوں کے گودام کو بھی لاشوں کو ایک ساتھ رکھ کر ان کی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم یہ تینوں مقامات میں گنجائش کم پڑنے لگی اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ ابتدائی طور پر شامی انقلاب کے دوران روزانہ 10 سے 15 لاشوں کی تصاویر لی جاتی تھیں، جو بعد میں بڑھ کر 50 لاشیں روزانہ تک پہنچ گئیں۔ ’قیصر‘ نے یہ بھی بتایا کہ اسدی نظام نے ہمیشہ کاغذات میں قتل کیے جانے والے قیدیوں کی موت کی وجہ دل کی دھڑکن اور سانس رکنے کو قرار دیا۔
’قیصر‘ نے اسد کے نظام کی خوفناک کارروائیوں کا ایک منظر پیش کیا، جس میں اس نے ہزاروں قیدیوں کے اہل خانہ کے خلاف منظم بلیک میلنگ کی تفصیلات شیئر کیں کہ قیدیوں کے بارے میں جاننے کے خواہش مند لواحقین سے ہزاروں ڈالر وصول کیے جاتے تھے اور ان کی پھانسی مو¿خر کرنے کی بھی منہ مانگی اُجرت وصولی جاتی تھی۔ قیصر سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح ان ہزاروں تصاویر کو جیل اور پھر ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوا؟ تو اس کا کہنا تھا کہ میں تصاویر کی منتقلی کے لیے استعمال ہونے والے آلات کو اپنے کپڑوں، روٹی کے بکس اور جسم میں چھپاتا تھا، تاکہ سیکورٹی چیک پوسٹوں پر تلاشی سے بچ سکوں۔ مجھے شام سے باہر نکلتے ہوئے اسدی نظام کے زیر کنٹرول علاقوں اور آزاد فوج کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی تلاشی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ المذہان نے کہا کہ اس کے پاس فوجی اور جعلی شناختی کارڈ تھے تاکہ وہ دمشق میں اپنے کام کی جگہ اور ریف دمشق کے شہر ’التل‘ میں اپنے گھر کے درمیان آسانی سے سفر کر سکے۔ اس نے بتایا کہ تصاویر کی منتقلی کا عمل تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اس کے کام کی جگہ سے گھر تک ہوتا رہا، جو تقریباً تین سال تک جاری رہا۔
بشار الاسد کے نظام سے علیحدگی کے بارے میں ’قیصر‘ نے کہا کہ میں نے یہ فیصلہ شام میں انقلاب کے آغاز سے کیا تھا، لیکن اس فیصلے کو اس لیے موخر کیا تاکہ میں زیادہ سے زیادہ تصاویر اور ثبوت جمع کر سکوں۔ ’قیصر‘ نے شام سے قطر جانے کی کہانی بھی بیان کی، جہاں وہ اُردن کے راستے روانہ ہوا اور وہاں ایک نجی ایجنسی کے دفتر نے اس کے کیس کی فائل تیار کی تاکہ ملک سے باہر جا کر بشاری حکومت کو جوابدہ ٹھہرا سکے۔ اس نے امید ظاہر کی کہ نئی شامی حکومت عدالتیں قائم کرے گی تاکہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کا پیچھا اور محاسبہ کیا جا سکے۔ اسی دوران قیصر نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’قانون قیصر‘ کو ختم کرکے شامی عوام پر لگائی گئی پابندیاں ہٹا لے۔ واضح رہے کہ نومبر 2016 میں امریکی ایوانِ نمائندگان نے ’قانون قیصر‘ کی منظوری دی تھی، جس میں اسد کے نظام پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا اور ان افراد پر پابندیاں عائد کی گئیں جو شامی عوام یا ان کے اہل خانہ کے خلاف مظالم میں ملوث تھے۔ اس قانون میں ان ہتھیاروں کی تفصیل دی گئی تھی جو شامی عوام کے خلاف استعمال کیے گئے، جن میں بارودی گولے، کیمیائی ہتھیار اور دیگر طریقے جیسے محاصرہ، تشدد، پھانسیاں، اور طبی سہولتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا شامل تھے۔
شامی نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس نے 2023ء تک 230,224 شہریوں کی ہلاکت کی دستاویز کی، جن میں 15,272 افراد کو جیلوں میں تشدد کرکے قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ 154,816 افراد کا اغوا یا گرفتاری ہوئی اور تقریباً 14 ملین شامی باشندے بے گھر ہوگئے۔ نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس نے کم ازکم 874 طبی سہولتوں پر حملے، 1416 عبادت گاہوں پر حملے اور 1611 اسکولوں پر حملے ریکارڈ کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اہم انفرا اسٹرکچر کو قبضے میں لیا گیا اور انہیں حراستی مراکز اور فوجی مقامات میں تبدیل کیا گیا اور شام کے مختلف صوبوں میں وسیع علاقے تباہ کر دیے گئے۔