1990ء میں سوویت روس سے علیحدگی کے بعد یوکرین کے پاس روس کے ایک تہائی جوہری ہتھیار تھے۔ دسمبر 1994ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کی تحفظ کی یقین دہانیوں پر بڈاپسٹ کے ایک اعلامیے میں یوکرین نے جوہری ہتھیار تلف کرنے کا اعلان کیا اور پھر ان جگہوں کو میوزیم بنا دیا گیا۔ ہاتھ پاؤں خود کاٹ ڈالنے کی غلطی اب یوکرین کو بھگتنا پڑ رہی ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ خود کردہ را علاج نیست۔ اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
ا مریکی صدر نے یوکرین کے صدر سے جب یہ کہا کہ آپ کے پاس کوئی کارڈ ہے؟ تو زیلنسکی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس میں اپنے بازو خود کاٹ دینے والی اقوام کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یوکرینی صدر ولادومیر زیلنسکی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے درمیان اوول آفس وائٹ ہاس میں کیمروں کے سامنے شدید گرما گرمی میں جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایک تلخ اور تنا والے ماحول میں صدر زیلنسکی وائٹ ہاس سے رخصت ہوئے۔ مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ اور وہ معاہدہ بھی دھرا رہ گیا جو یوکرین کی قیمتی معدنیات میں امریکی شراکت داری کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ وڈیو کلپ میں ٹرمپ وانس اور زیلنسکی ایک دوسرے کی باتیں کاٹ کراورسفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر کیمروں کی پروا کیے بغیر جملے ادا کر رہے تھے۔ اس سے قبل بڑوں کی ملاقات میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا گیا۔
امریکا ہمیشہ سے عالمی تھانیدار ہے مگر اب اس نے ہیڈ ماسٹر کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ صدر ایوب خان نے امریکی فطرت بھانپتے ہوئے اپنی کتاب کا عنوان ”فرینڈز ناٹ ماسٹر” رکھا تھا۔ ٹرمپ نے یوکرینی صدرکو بالکل ایک اسکول ٹیچر کی طرح ڈانٹ پلائی۔ انسانی مزاج ہے کہ جب دو افراد اکیلے ہوں تو معاملہ سلجھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بند کمروں کی گفتگو آپ کی انا کیلئے خطرہ نہیں بنتی۔ آپ صورتحال کو سنبھال لیتے ہیں۔ جب وہی گفتگو آپ پبلک میں کر رہے ہوں تو پھر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ لاکھوں نظریں آپ پر ہیں۔ اس وقت جو مکا مارنا ہے مار دیں۔ وہ لمحہ آپ کو میک یا بریک لگتا ہے۔ ایسے میںآپ نے اپنے عوام فالورز اور ووٹرز کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔
دیکھا جائے تو یوکرین کو آج جن مصائب کا سامنا ہے، اِس میں امریکی مقتدرہ اور نیٹو کا اہم کردار ہے جنھوں نے روس سے طے شدہ معاہدوں سے انحراف کیا اور مشرقی یورپ تک نیٹو کی رکنیت کو وسعت دی بلکہ فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ جدید ہتھیار بھی نصب کردیے جس پر روس نے احتجاج اور معاہدوں کی طرف توجہ مبذول کرائی لیکن جواب میں یوکرین کو تھپکی دی گئی کہ اگر وہ روس سے ٹکرا جائے تو نیٹو میں شامل تمام ممالک اس کا ساتھ دیں گے۔ تھپکی دینے والوں نے ہتھیاروں کے سوا یوکرین کی فوجی مدد نہ کی۔ اب یوکرین کے کئی اہم علاقوں پر روس کا قبضہ ہے۔
روس سے امریکا تیسرے ملک میں خود مذاکرات کر رہا ہے جس پر یوکرینی قیادت پریشان ہے۔ یوکرین چاہتا ہے کہ جنگ بندی کی گفتگو میں اسے بھی شامل کیا جائے، اِس کے لیے وہ مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے کے ساتھ نیٹو کی رکنیت نہ لینے کی یقین دہانی کرانے پر بھی تیار ہے مگر امریکا چاہتا ہے کہ یوکرین غیر مشروط جنگ بندی کرے۔
ولادیمیر زیلنسکی یوکرین کو دنیا کا عظیم تر ملک بنانے کے نعرے سے ہی صدر منتخب ہوئے۔ اگر زیلنسکی یورپ اور امریکا سے تجارتی اور دفاعی تعلقات بڑھانے تک رہتے اور نیٹو رکنیت کی ضد نہ کرتے تو روس شاید حملہ نہ کرتا۔ اب تین برس سے امریکا اور مغربی ممالک محض تماشائی ہیں اوریوکرین کو بیچ منجھدار چھوڑ دیا گیا ہے۔
جوبائیڈن دور میں زیلنسکی اہلیہ سمیت بے مثال استقبال اور کانگریس سے خطاب بھول نہیں پائے اور اسی پس منظر میں وہ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے اوول آفس پہنچے، حالانکہ اس وقت مقصد یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا کر افواج روس کی سرحد کے پاس تعینات کرانا تھا مگر ٹرمپ نے امریکی ایجنڈا یکسر بدل دیا جس کا زیلنسکی ادراک نہ کرسکے۔
یوکرین کی معدنی ذخائر بھی اس کی بدقسمتی بن چکے ہیں، الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی گریفائٹ برآمد کرنے میں اس کا دنیا میں پانچواں نمبر ہے بیٹریاں بنانے والی لیتھیئم، جہاز اور پاور اسٹیشنز بنانے میں استعمال ہونے والی ٹائٹینیم سمیت دیگر سترہ قسم کی معدنیات کے بھی وسیع ذخائر ہیں جن پر امریکا کی نظریں ہیں۔
ہمارے ہاں کچھ ایکس زدہ مبصرین یوکرینی صدر کی سبکی کو ٹرمپ کے سامنے ڈٹ جانے سے تعبیر کرکے اس صورتحال کو ماضی میں اپنے بعض کرداروں کے امریکا کے سامنے لیٹ جانے کا توہین آمیز رویہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ ہمہ وقت اپنے ملک کی سبکی کے واقعات تاریخ کے اوراق میں تلاش کرکے خوش ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تب سے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں جب سے ان کے ممدوح کواپنی ”ناکردنیوں” کی وجہ سے آئینی عمل سے اقتدارسے اتارا گیا۔ حالانکہ جب انہیں ایک خاص مقصد کے تحت ملک پر غیر آئینی طور سے مسلط کیا گیا اور آر ٹی ایس بٹھانے تک سے دریغ نہیں کیا گیا تھا، تب ان ایکس زدہ کرداروں نے اپنے ممدوح کے غیر آئینی تسلط پر کبھی کوئی سوال اٹھایا نہ اعتراض کیا۔ ان بے چاروں کا حال راحت اندوری کے اس شعر کے مصداق ہے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
یورپ پر 25فیصد ٹیکس کا اعلان کرکے جو تجارتی جنگ چھیڑی گئی ہے اسے بھی ٹرمپ کی امریکا کو اجاڑنے کی کوششوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اس سلیقے سیاسے ہم نے اجاڑا ہے کہ اب
گھر میں آسیب بھی آئے تو بدک جاتا ہے
ٹرمپ اور زیلنسکی دونوں پاپولزم کی لہر کا نتیجہ ہیں، پچھلے دس برسوں میں وہی لوگ برسر اقتدار آئے جنہوں نے اپنی قوم کو عظیم بنانے کے نعرے مارے۔ مودی نے ہندو ازم کا نعرہ لگایا جو کانگریس کے سیکولر نعرے سے زیادہ مسحور کن تھا اور آج بھی ہے۔ یہی کام پاکستان میں عمران خان نے کیا، جب انہوں نے نعرہ مارا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں اور یہ کہ میں آپ کو ایک عظیم قوم بناؤں گا۔ یہی کچھ برطانیہ میں بورس جانسن نے بریگزٹ کا نعرہ لگا کر کیا۔ بریگزٹ کامیاب ہوا لیکن مہنگائی نے اہل برطانیہ کا جینا حرام کر دیا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ پاپولر سیاست میں جذباتی نعروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرمپ، مودی، بورس جانسن، عمران خان یا زیلنسکی کا عروج دیکھ لیں۔ آپ کو ان پانچوں میں بہت سی باتیں مشترک نظر آئیں گی۔ زیلنسکی سیز فائر کے ساتھ سکیورٹی گارنٹیاں بھی چاہتے ہیں۔ جس کیلئے امریکی تیار نہیں، اسی لیے بات بگڑ گئی۔ امریکی صدر نے بار بار کہا کہ ہمارے بغیر آپ کے پاس کوئی کارڈز نہیں۔ آپ ممکنہ تیسری عالمی جنگ پر داؤ کھیل رہے ہیں۔ اس گرماگرمی کے بعد زیلنسکی رخصت ہو ئے۔ کچھ دن قبل فرانس کے صدر اور برطانوی وزیراعظم کی ٹرمپ سے ملاقات کا مقصد بھی ٹرمپ کو یوکرین کی حمایت سے دستبرداری سے باز رکھنا تھا۔ زیلنسکی بھی چاہتے تھے کہ پوتن کی حمایت سے امریکا کو باز رکھا جا سکے لیکن یہ تینوں اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ ٹرمپ کا موقف وہی ہے کہ یوکرین روس جنگ میں سب سے زیادہ مالی نقصان امریکا کا ہوا ہے اور یورپی ممالک اپنے حصے کی رقم بہت کم دے رہے ہیں یا قرض کی صورت میں دے رہے ہیں۔ اس لیے امریکا یوکرین کو مزید مالی سپورٹ نہیں دے سکتا۔ یورپی یونین نے یوکرین کے لیے پونے دو ارب ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا ہے لیکن یہ روس سے جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ صدر زیلنسکی اب دوبارہ وہائٹ ہاؤس حاضری اور اپنے معدنی وسائل صدر ٹرمپ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!