خطے میں نئی ڈرٹی گیم کی تیاری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں جو اقدامات کیے ہیں اور جو بیانات دیے ہیں، ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یوکرین میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر پراکسی وار کو کھلی جنگ میں تبدیل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس بار بھی جنگ کا میدان افغانستان بننے کے امکانات ہیں، لیکن اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو براہِ راست جنگ میں جھونکنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ایک انٹیلی جنس تعاون پر اچانک پاکستانی حکومت کی تعریف ایک معنی خیز امر ہے۔

امریکا جنگ کو یورپ سے جنوبی ایشیا منتقل کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا؟ جس انداز میں امریکی صدر نے یوکرین کے صدر کی تضحیک کی، وہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ لگتی ہے۔ اس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ امریکا تیسری عالمی جنگ نہیں چاہتا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکا اور یورپ نے روس کے خلاف یوکرین کی ہر ممکن مدد کی، لیکن اس کے باوجود وہ روس کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ اگرچہ روسی جنگی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، مگر اس جنگ میں یوکرین مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اب امریکا اس جنگ کی بساط لپیٹنا چاہتا ہے جبکہ افغانستان میں شکست کا زخم اسے بھلائے نہیں بھولتا۔ اب اس ذلت آمیز شکست سے نکلنے کے لیے امریکی صدر نے یہ بیانات دیے ہیں کہ بگرام کا ہوائی اڈا امریکا کے کنٹرول میں ہونا چاہیے تھا اور ہم اسے دوبارہ حاصل کریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات انتہا ئی پست سطح پر پہنچ چکے ہیں، ان دنوں طورخم بارڈر پر کشیدگی عروج پر ہے اور گزشتہ پندرہ دنوں سے یہ بارڈر بند ہے۔

ایسے میں امریکی صدر کے لگاتار متنازع بیانات ایک نئے ڈرٹی گیم کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ سوالات نہایت اہم ہیں کہ کیا خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیا یہ پاکستان اور افغانستان کے مفاد میں ہوگا؟ کیا پاکستان امریکا کی اس نئی چال میں شریک ہوگا؟ کیا اس کے نتیجے میں چین اور روس کے خطے میں موجود مفادات متاثر نہیں ہوں گے؟
یوکرین کی جنگ کے اثرات پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس جنگ نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج سے مختلف بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ یورپ پہلی بار نیٹو سے باہر اپنی فوجی طاقت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ نیٹو ایک کمزور اتحاد کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کے خاتمے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یورپ اندرونی طور پر تقسیم ہوچکا ہے، صرف رسمی اعلان باقی ہے۔ ترکیہ اپنے ترک النسل اتحادیوں جیسے قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کے ساتھ ایک نیا اتحاد ”توران گروپ” بنانے پر کام کر رہا ہے۔ دوسری طرف روس برکس اور دیگر تجارتی و سفارتی بلاکس کو مستحکم کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ روس کو تنہا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، البتہ ایک اہم روسی اتحادی بھارت اب مکمل طور پر امریکی کیمپ میں شامل ہو چکا ہے۔
چین کو اپنے تجارتی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور تائیوان کے تنازع پر تشویش لاحق ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو امریکی ڈرٹی گیم میں شریک ہونا چاہیے؟ جب ہر ملک اپنی بقا اور مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف معاہدے اور حکمتِ عملیاں ترتیب دے رہا ہے، تو کیا پاکستان کسی نئی عالمی سازش کا شکار ہونے کو تیار ہے؟ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے۔ کیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ ختم کر دیا ہے؟ یا وہ اب آزاد کشمیر پر قبضے کے خواب دیکھ رہا ہے؟ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ بلوچستان میں سرگرم عسکری تنظیموں کو کون مالی مدد فراہم کر رہا ہے؟ یہ تمام سوالات پاکستان کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے نہایت اہم ہیں۔

حالیہ دنوں مودی کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر امریکا اور بھارت کے مشترکہ بیان میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق عزائم کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے۔ اسرائیل کو جس انداز میں امریکی پشت پناہی حاصل ہے اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر جو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگلا ہدف پاکستان ہے۔ دوسری جانب امریکا بھارت کو اپنا اسٹریٹجک پارٹنر قرار دے چکا ہے، مگر اس کے باوجود صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات کا مقصد پاکستان پر ڈومور کا دباؤ ڈالنا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے ماضی میں امریکا کی ہر خواہش کو پورا کیا۔ ایمل کانسی کے وکیل نے کہا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ پیسوں کے عوض کچھ بھی بیچ سکتے ہیں۔ افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ کیا اب بھی ہماری قیادت اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں؟

افغان حکومت نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ امریکی ہتھیار واپس نہیں کریں گے کیونکہ یہ افغان عوام کی ملکیت ہے اور اسے مالِ غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر افغان حکومت اسلحہ واپس کرنے سے انکار کرتی ہے تو امریکا کے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے؟ کیا امریکا اسلحہ کی واپسی کے بدلے افغان حکومت کو تسلیم کر نے کی پیشکش کرے گا؟ یا پابندیاں ختم کرے گا؟ یا مالی امداد فراہم کرے گا؟ یا افغانستان پر ایک بار پھر حملہ کر دے گا؟
یہ واضح ہے کہ امریکا، بھارت اور ان کے اتحادی نہیں چاہتے کہ پاکستان کے راستے چین اور روس تک تجارتی راہداری فعال ہو۔ وہ نہیں چاہتے کہ خطے میں اقتصادی روابط مضبوط ہوں، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یورپ اور امریکا کی سرزمین تیسری عالمی جنگ کا میدان بنے۔ ان کے مفادات اسی میں ہیں کہ جنگ کا مرکز ایشیا کو بنایا جائے، تاکہ وہ خود براہ راست متاثر نہ ہوں مگر کیا جنگ کو ہمیشہ روکا جا سکتا ہے؟ اگر خطے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو اس کے اثرات نہ صرف ایشیا بلکہ اسرائیل سے لے کر امریکا تک سب پر مرتب ہوں گے۔

یہی خوف امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ خطے میں عدم استحکام کو بڑھاوا دیں۔ فلسطین سے لے کر شام تک اور پاکستان سے لے کر افغانستان تک، جنگیں چھیڑنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں۔ اسی تناظر میں امریکی صدر نے بگرام ایئر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا بگرام ایئربیس کو واپس لینے کے بہانے پاکستان سے مزید ہوائی اڈے اور فوجی تعاون کا مطالبہ کرے گا؟ اگر امریکا افغانستان سے بگرام بیس لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو کیا وہ اس کے بہانے پاکستان میں دوبارہ فوجی اڈے قائم کرے گا؟ یہ سوالات نہایت اہم ہیں اور براہِ راست پاکستان کی خودمختاری، قومی سلامتی اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیا اس بار روس اور چین خاموش رہیں گے؟ یا وہ خطے میں امریکی مداخلت کے خلاف عملی اقدامات کریں گے؟ وقت اس کا فیصلہ کرے گا، لیکن یہ طے ہے کہ ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو چکا ہے اور پاکستان کو نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔