مولانا حامد الحق حقانی شہید کی شخصیت و کردار پر نظر

(گزشتہ سے پیوستہ)
دماغ میں مولانا حامدالحق کی شخصیت واخلاق وکردار کے حوالہ سے نقشہ گھوم رہا تھا کہ ہائے اس شخصیت کوظالموں نے مارتے ہوئے یہ نہ دیکھا کہ یہی وہ عظیم انسان ہے جنہوں نے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اجتماع جمعہ عوامی قرار داد منظور کرائی۔ یہی وہ درمند تھے جنہوں نے ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کیلئے آواز بلند کی۔ افغانستان میں بیرونی جارحیت جس دور میں بھی ہوئی، اس کے خلاف میدان عمل میں رہے۔ تحفظ وتقدس حرمین کے دفاع کیلئے بارہا اجتماعات کیے۔ عراق، لیبیا، بوسنیا، جہاں بھی مسلمان مظلو م ومقہور نظر آیا، اس کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان میں اعلائے کلمة اللہ کیلئے کردار ادا کیا۔ دوسری طرف تحفظ ختم نبوت کا مسئلہ ہو، ناموس رسالت وناموس صحابہ کا مشن ہو، عظمت قرآن کا معاملہ ہو ہر جگہ وہ اپنی حاضری لگانا فرض منصبی سمجھتے۔ آج اس آواز کو مٹانے اور ختم کرنے کی مذموم کو شش کی گئی، مگر
نورخداہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

پارلیمنٹ میں شریعت بل کی جدوجہدہو، نوشہر ہ کے عوام کے حقوق کے تحفظ کی بات ہو، ہر میدان میں ہمہ وقت سرگرم عمل نظر آتے۔ ہم ان کی کس کس ادا کو یاد کریں؟ان کی شخصیت کا چوتھارخ مملکت عزیزپاکستان کے دفاع وتحفظ کیلئے میدان میں نکلنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چند جملوں میں ان کے کردار کا احاطہ ممکن نہیں تاہم یہ ایک جھلک ہی تھی جو پیش کی گئی۔ شہید کے مختصر حالات یوں ہیں:
٭ولادت: مولانا حامد الحق حقانی بن حضرت مولانا سمیع الحق کی پیدائش ٢٦مئی ١٩٦٧ء جمعة المبارک کے دن بوقت طلوع شمس بمکان حضرت شیخ الحدیث واقع نزد مسجد (و قدیم مدرسہ حقانیہ) محلہ ککے زئی میں ہوئی۔
٭خاندانی شرافت:جد اعلیٰ مولانا عبدالحمید کے نام کے ساتھ لاحقہ” اخند” کاغذات مال میں مرقوم ہے اور یہ لقب صاحبِ سوانح کی تحقیق کے مطابق وسط ایشیا، ایران اور مغربی ترکستان میں دینی پیشوا، مفتیوں اور بلند پایہ علماء کیلئے استعمال ہوتا آیا ہے۔ والدہ محترمہ دخترِ الحاج میاں کرم الٰہی صاحب (جو پشاور کے معروف تاجر اور معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے) کی جانب سے شجرہ نسب رہبر طریقت حضرت میاں محمد عمر صاحب چشتی المعروف سوکنوبابا جی آف چمکنی پشاور تک پہنچتا ہے۔

٭تعلیم :داداجان حضرت شیخ الحدیث نے خوداپنی مسجد میں رسم بسم اللہ کروا کر” کابل استاد” کے پاس ناظرہ قرآن کے لیے بٹھایا۔ پھر خود حضرت نے نماز سکھائی اور عملاً پڑھوائی۔ باضابطہ رسم بسم اللہ حضرت شیخ الحدیث کی موجودی میںوالد گرامی مولانا سمیع الحق نے دارالعلوم دیو بند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے ذریعے ٣ فروری ٩٧٥اء کو (سات برس کی عمر میں ) بروز پیر صبح نو بجے دارالعلوم حقانیہ کے دفتر اہتمام میں کروائی۔ عصری تعلیم کیلئے اسلامیہ تعلیم القرآن حقانیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ آٹھویں کلاس (مڈل) تک اسی اسکول میں پڑھنے کے بعد جون ١٩٨٣ء کے وسط میں مستقل درجہ اولیٰ کی کتابیں شروع کیں۔ درس نظامی کے دوران علوم عصریہ کی تعلیم پرائیویٹ طور پر جاری رکھتے ہوئے میٹرک ١٩٨٩ ئ، ایف اے ١٩٩٠ء میں انٹرمیڈیٹ بورڈ پشاور سے پاس کیا۔ بی اے پولیٹیکل سائنس پنجاب یونیورسٹی لاہورسے١٩٩٢ء میں کیا، علوم عربی کا کورس جامعة الامام السعود الریاض سعودی عرب سے ١٩٩٣ء میں کیا۔

٭فراغت: ١٩٩٢ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فراغت حاصل کی۔ دستار بندی پاکستان اور افغانستان کی مذہبی اور سیاسی قیادت کے ہاتھوں سرانجام پائی۔ ٭سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے وابستگی:حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ‘ حضرت علامہ مولانا قاضی زاہدالحسینی ‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید صدیقی نقشبندی سے تصوف وسلوک میں استفادہ کیا۔ ٭تدریسی خدمات :2مئی 1992 بروز ہفتہ حقانیہ میں تدریس کا آغاز کیا، ابتداء ً حسبتہ للہ یہ خدمات انجام دیں، بعد میں ١٢٠٠ روپیہ مشاہرہ مقرر ہوا۔ ممبر اسمبلی منتخب ہوکر مشاہرہ لینا ترک کردیا۔
جہاد میں کردار:جہاد افغانستان میں اپنے خاندان کے بزرگوں کی طرح خدمات انجام دیں۔ افغانستان کے مختلف محاذوں اور چھائونیوں میں وقت گزارا۔ پاکستان اور افغانستان میں مجاہدین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین کیلئے سیاسی محاذوں پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے جدوجہد کی۔
آپ کے تلامذہ میں سے سینکڑوں فارغ التحصیل، مجاہد، پروفیسرز، لیکچرر، فوج میں خطبائ، مدارس میں مدرسین اور اسکولوں میں معلمی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ٭سیاسی ورفاہی امور : ضلع نوشہرہ اور خصوصاً اکوڑہ خٹک میںرفاہی عوامی خدمات کے علاوہ ملکی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کا حصہ رہے۔ این اے ٦ سے ٢٠٠٢ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ٭اسفار وزیارات اکابر: کئی مرتبہ حج و عمرہ اور تعلیمی سلسلہ میں سعود ی عرب جانے کی سعادت حاصل کی، متحدہ عرب امارت، اردن، سینٹرل ایشیا، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، یورپ اور برطانیہ کے مختلف ممالک کے دورے کیے، جشن صد سالہ دیوبند میںاپنے والد کے ہمراہ شرکت کی، حضرت مولانا قاری محمدطیب، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، حضرت مولانا اسعد مدنی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا، شیخ بن باز مفتی اعظم سعودی عرب، شیخ عبداللہ ابن سُبّیل، اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیر گل، حضرت مولانا سعید احمد خان امیر تبلیغی جماعت (مدینہ منورہ) حافظ القران و الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی، حضرت مولانا مفتی محمود ، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی، علامہ شمس الحق افغانی اور دیگر کئی بزرگوں سے شرف ملاقات حاصل رہا۔
٭اولاد: اولاد میں چار بیٹیاں طوبیٰ، طیبہ، آمنہ، مریم اور دو بیٹے مولانا عبدالحق ثانی فاضل ومدرسِ حقانیہ جبکہ حافظ محمداحمد زیر تعلیم ہیں جبکہ احفاد میں محمد مصطفی، شافع الحق، محمد حسن شامل ہیں۔