توبہ کیجئے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے!

سب سے پہلے توبہ کیجیے۔ قرآن پاک میں آتا ہے: ”توبہ جس کا قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ تو ان ہی کی ہے جو حماقت سے کوئی گناہ کر بیٹھے ہیں، پھر قریب ہی وقت میں توبہ کرلیتے ہیں۔ سو ان پر تو اللہ تعالیٰ توجہ فرماتے ہیں۔ اللہ خوب جانتے ہیں، حکمت والے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی توبہ نہیں جو گناہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی ہوئی تو کہنے لگا: ”میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ اُن لوگوں کی توبہ قبول ہے جن کو حالتِ کفر پر موت آجاتی ہے۔ اُن کافروں کے لیے ہم نے ایک دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔” (النسائ، آیت 18-17)

توبہ سے متعلق علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت مثال دی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے توبہ کے بارے میں اس دن بہتر پتا چلا جب میں کہیں جارہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک خاتون اپنے بچے کو دروازے سے دھکے دے کر باہر نکال رہی ہے اور دروازہ بند کردیتی ہے۔ بچہ جب بند دروازہ دیکھتا ہے تو مختلف گلی کوچوں میں گھومتا پھرتا ہے۔ جب تھک ہار جاتا ہے۔ واپس اپنے گھر کی راہ لیتا ہے، لیکن جب دروازے کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ اندر سے بند پاتا ہے۔ بچہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے لیکن اندر سے دروازہ کھلتا نہیں۔ ایک بار پھر مٹرگشت شروع کردیتا ہے۔ پھر واپس گھر کے دروازے پر آتا ہے تو دروازہ بند پاتا ہے۔ اس طرح کئی چکر لگاتا ہے اور ہر بار ناکام لوٹتا ہے۔ بالآخر تھک ہار کر وہ دروازے کے سامنے لیٹ جاتا ہے۔ اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ اس دوران جب ماں دروازہ کھول کر باہر دیکھتی ہے۔ اپنے معصوم بچے پر نظر پڑتی ہے۔ شدتِ جذبات سے آنکھیں چھلک جاتی ہیں اور اپنے بیٹے کو بانہوں میں لے کر کہتی ہے: ”میرے بچے! تم جیسے بھی ہو، ہو تو میرے لختِ جگر۔” بالکل یہی مثال ایک گنہگار بندے کی ہے۔ وہ اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے۔ ہر قسم کے گناہ کرتا ہے لیکن جب اپنے رب کی دہلیز پر سر جھکاتا ہے۔ چند قطرے گراتا ہے۔ اللہ اسے اپنی شان کے مطابق بانہوں میں لیتا ہے۔

مولانا رومی نے اپنی کتاب ”معارف مثنوی” میں ایک حکایت لکھی ہے۔ ایک شخص تھے جس کا نام ”نصوح” تھا۔ شکل اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی، لیکن تھا وہ مرد۔ شاہی محلات میں بیگمات اور دختران خسرواں کو نہلانے اور میل نکالنے کی خدمت پر مامور تھا۔ عورت کے لباس میں یہ شخص ملازمہ اور خادمہ بنا ہوا تھا۔ چونکہ یہ مرد شہوت کاملہ رکھتا تھا، اس لیے بادشاہ کی بیٹیوں کی مالش سے نفسانی لذت بھی خوب پاتا اور جب بھی توبہ کرتا، اس کا نفس اس کی توبہ توڑدیتا۔ ایک دن اس عاجز نے سنا کہ کوئی بڑے سے عارف بزرگ تشریف لائے ہیں، یہ بھی حاضر ہوا اور کہا۔ یہ گنہگار عارف کے سامنے گیا اور کہا ہم کو دُعا میں یاد رکھیے۔ ان بزرگ کی دُعا سات آسمانوں سے اوپر گزرگئی، یعنی اس عاجز مسکین کا کام بن گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس کی خلاصی کا ایک سبب پیدا فرمایا۔ نصوح اور دیگر خادمات کی تلاشی کی ضرورت واقع ہوئی، کیونکہ زنان خانے میں ایک بیش بہا موتی گم ہوگیا۔ حمام خانے کے دروازے کو بند کرکے تلاش شروع ہوئی، جب کسی سامان میں وہ موتی نہ ملا۔ آواز دی گئی کہ سب خادمات عریاں ہوجائیں، خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھی ہوں۔ اس آواز سے نصوح پر لرزہ طاری ہوگیا، کیونکہ یہ دراصل مرد تھا، مگر عورت کے بھیس میں عرصے سے خادمہ بنا ہوا تھا۔ اس نے سوچا آج میں رسوا ہوجائوں گا اور مجھے قتل سے کم سزا نہیں ہوسکتی۔ میں نے نہایت سنگین جرم کیا ہے۔ یہ نصوح خوف سے خلوت میں گیا۔ چہرہ زرد، ہونٹ نیلے ہورہے تھے ہیبت سے۔نصوح موت کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا اور مثل برگ لرزہ براندام ہورہا تھا۔ اسی حالت میں یہ سجدے میں گرگیا اور رو روکر کہنے لگا: ”اے خدا اب وہ معاملہ کیجیے جو آپ کے لائق ہے کیونکہ میرے ہر سوراخ سے میرا سانپ مجھے ڈس رہا ہے۔ اگر موتی کی تلاش کی نوبت خادمات سے گزر کر مجھ تک پہنچی تو اُف میری جان کس قدر سختی اور بلا کا عذاب چکھے گی۔ اگر آپ اس مرتبہ میری پردہ پوشی فرمادیں تو میں نے توبہ کی ہر نالائق فعل سے۔”

نصوح یہ مناجات کرتے کرتے کہنے لگا: ”اے رب! میرے جگر میں سیکڑوں شعلے غم کے بھڑک رہے ہیں اور آپ میری مناجات میں میرے جگر کا خون دیکھ لیں کہ میں کس طرح بے کسی اور درد سے فریاد کررہا ہوں۔” نصوح اپنے رب سے گریہ وزاری کر ہی رہا تھا کہ یہ آواز آئی کہ سب کی تلاشی ہوچکی، اب اے نصوح! تو سامنے آ اور عریاں ہوجا۔” یہ سننا تھا کہ نصوح اس خوف سے کہ ننگے ہونے سے میرا پردہ فاش ہوگا، بے ہوش ہوگیا اور اس کی روح عالم بالا کی سیر میں مشغول ہوئی۔ اس کی روح بے ہوشی کے وقت حق سے قریب ہوئی اور بحرِ رحمت کو اس وقت جوش آیا اور حق تعالیٰ کی قدرت سے نصوح کی پردہ پوشی کے لیے بلاتاخیر فوراً موتی مل گیا۔ اچانک آواز آئی کہ خوف ختم ہو اور وہ موتی گم شدہ مل گیا۔ وہ بے ہوش نصوح پھر ہوش میں آگیا اور اس کی آنکھیں سیکڑوں دن سے زیادہ روشن تھیں، یعنی عالم بے ہوشی میں نصوح کی روح کو حق تعالیٰ کی رحمت نے تجلیات قرب کا مشاہدہ کرادیا تھا جس کے انوار اس کی آنکھوں میں بعد ہوش کے بھی تاباں تھے۔

شاہی خاندان کی عورتوں نے نصوح سے معذرت کی اور شفقت سے کہا ہماری بدگمانی کو معاف کردو، ہم نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے۔ ہم بدگمان تھے ہم کو معاف کر، ہم نے قیل وقال سے تیرا گوشت کھایا۔ یعنی غیبت یا تلاشی کے خوف سے۔ نصوح نے کہا: ”یہ خدا کا فضل ہوگیا مجھ پر اے مہربانو! ورنہ جو کچھ میرے بارے میں کہا گیا ہے، ہم اس سے بھی برے اور خراب ہیں۔”
اس کے بعد سلطان کی ایک بیٹی نے اس کو مالش اور نہلانے کو کہا، مگر نصوح اللہ والا ہوچکا تھا اور بے ہوشی میں اس کی روح قرب کے خاص مقام پر فائز ہوچکی تھی۔ اتنے قوی تعلق مع اللہ اور یقین کی نعمت کے بعد گناہ کی ظلمت کی طرف کس طرح رُخ کرتا کہ روشنی کے بعد ظلمت سے کراہت محسوس ہونا فطری امر ہے۔ نصوح نے دختر شاہ سے کہا اے دختر! میرے ہاتھ کی طاقت اب بے کار ہوچکی ہے اور تمہارا نصوح اب بیمار ہوگیا ہے، یعنی اس حیلے سے اس نے اپنے کو گناہ سے بچایا۔

نصوح نے کہا:” میں نے حقیقی توبہ اپنے مولیٰ سے کی ہے میں اب اس توبہ کو ہرگز نہ توڑوں گا، خواہ جان ہی میرے تن سے جدا ہوجائے۔ ”یہ واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی حالت سے کبھی ناامید نہ ہونا چاہیے۔ حق تعالیٰ کی رحمت ہر حالت کی اصلاح پر قادر ہے۔ توبہ کے اصل اجزا تین ہیں: (1) جو گناہ ہوچکے ان پر شرمندگی اور ندامت۔ (2)آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم۔ (3) جو حقوق اللہ اور حقوق العباد تلف کیے ہیں، ان کی تلافی کرنا۔ اس انداز سے جب توبہ کی جائے گی تو وہ ضرور قبول ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔