آج سے دو ماہ قبل اہلیہ کو کینسر تشخیص ہوا تو مختلف ہسپتالوں میں چکر لگے۔ ہر ہسپتال نے اپنا الگ طریقہ علاج اور ابتدائی طور پر لاکھوں روپے کا تخمینہ بتا کر میری پریشانی کو مزید بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نجی ہسپتالوں نے ہماری جیبوں میں جھانکنا شروع کر دیا اور فوری داخل ہونے پر زور لگانا شروع کر دیا ۔
ذہن ماوف اور پریشانی اتنی شدید کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ کتنے ہی دن تو خود کو سنبھالنے اور کوئی فیصلہ لینے میں لگ گئے۔ اچانک بیماری اور ہوش ربا اخراجات کا سن کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کونہ ڈھونڈا کرتا تھا۔ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو وزٹ کرتے کرتے کئی دن یہ سوچنے میں گزر گئے کہ اس آزمائشی صورتحال سے نکلنا کیسے ہے اور آغاز کہاں سے کرنا ہے۔ ہر ٹیسٹ ہزاروں کا، علاج سے قبل اور دوران علاج بے شمار مہنگے ٹیسٹ، اور پھر لاکھوں کا علاج…. یہ آسان آزمائش نہیں تھی، مگر سر پہ پڑ چکی تھی اور اس سے بہرحال نمٹنا تھا، کیونکہ جب بھی میرا حوصلہ ماند پڑنے لگتا، تو مجھے یاد دلایا جاتا کہ میں اپنی فیملی کا وہ حوصلہ ہوں جس سے ٹیک لگائے وہ کھڑے ہیں۔ لہذا مجھے خود کو کمزور پڑنے سے بچانا ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے بھی میرے آنسو آنکھوں کی قید سے آزاد ہو رہے ہیں۔ کیونکہ میں تاحال اس آزمائش سے دوچار ہوں، مگر آغاز کا وقت یاد کرتا ہوں تو دل و دماغ تاریک ہو جاتا ہے۔ اب بھی اکثر میرے آنسو بے قابو ہوتے ہیں ، لیکن اس میں شکر کے آنسو بھی شامل ہوتے ہیں کہ اس کٹھن صورتحال میں میرے رب نے مجھے تھاما اور ایسا راستہ دکھایا کہ اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں میری مشکل کچھ آسان ہوئی۔
کینسر ان موذی اور مہنگی ترین بیماریوں میں سے ہے، جس کے علاج کیلئے انسان کے پاس وسائل دستیاب ہوتے ہوئے بھی کم پڑ جاتے ہیں ۔ ہم مڈل کلاسئے تو اس کے علاج کی سکت نہیں رکھتے۔ صحت کارڈ بھی اس قدر سہولت نہیں دیتا کہ اس بیماری کے مکمل اخراجات تمام لوازمات کے ساتھ اٹھا سکے۔ میں نے مختلف کینسر ہسپتال بھی وزٹ کئے اور ان کی بہت سی ”مشروط پالیسیوں“ سے آشکار ہوا۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اور چند قریبی دوستوں سے مشورہ کر کے ایک کینسر ہسپتال کا انتخاب کیا۔ گو کہ مشکل فیصلہ تھا مگر اس طبی ادارے نے اسے بہت حد تک میرے لئے آسان بنا دیا اور میری استطاعت کے مطابق علاج معالجے کی سہولت دی۔
کینسر کے علاج کی سہولیات فراہم کرنے والے ہسپتال بہت غنیمت ہیں ۔ ان میں سے چند تو کینسر کے علاج کی تمام سہولیات سے آراستہ سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہیں۔ سہولیات گنوانے لگ جاوں تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایسے ہسپتال امید کے بند ہوتے دروازوں میں روشنی کی کرن ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہاں بھی علاج سستا نہیں، یہ فیس لیتے ہیں اور دیگر نجی ہسپتالوں کی طرح ٹھیک ٹھاک چارج کرتے ہیں۔ مریض ہر ہسپتال کیلئے کلائنٹ ہوتا ہے۔ کینسر ہسپتالوں کیلئے بھی ایسا ہی ہے۔ علاج کیلئے پیکج یہاں بھی بنائے جاتے ہیں۔ مگر کینسر کے علاج کیلئے مختص چند ہسپتالوں میں اتنی سہولت ضرور دی جاتی ہے کہ علاج کی فیس مریض کی جیب دیکھ کر طے کرتے ہیں۔ جس ہسپتال کا میں نے انتخاب کیا ، یہاں جس سہولت اور عزتِ نفس کے ساتھ مریض کی خودداری کا خیال رکھ کر، استطاعت کے مطابق اسے ڈیل کیا جاتا ہے وہ یقینا قابل قدر ہے۔ گو کہ یہ مشروط پیکج ہوتا ہے مگر بہرحال حوصلہ افزاءہے ۔ کتنے ہی مریض ہیں جن کی امید کا دھاگہ ایسے ہسپتال ٹوٹنے نہیں دیتے ۔
مجھ پر جو امتحان آیا، اس سے قبل میں ہسپتالوں کو عطیات دینے پر زیادہ یقین نہیں رکھتا تھا۔ مگر مذکورہ واقعہ اور آنکھوں دیکھے شواہد کے بعد میری سوچ تبدیل ہوئی۔ میں نے یہاں بے شمار لوگوں کو علاج کی مفت یا سبسڈائز سہولت سے فائدہ اٹھاتے دیکھا۔ میں نے پاکستان بھر سے آئے مجبور و بے کس مریضوں کو اس ہسپتال کیلئے دعائیں کرتے بھی دیکھا۔ میں نے جانا کہ ایسے ہسپتالوں کی مالی سپورٹ کرنا نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری بلکہ انتہائی ضروری بھی ہے۔ جب ہم عطیات دے کر اس سسٹم کو سپورٹ کرتے ہیں، تو درحقیقت ہزاروں خاندانوں کو زندگی کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہاں 70 فیصد سے زائد مریض ہمارے عطیات کی مدد سے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے دئیے گئے عطیات ، کوئی خیرات نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی کا ایک سلسلہ ہےں جو ہم سب کو جوڑتے ہیں۔ یہ ہسپتال صرف ایک ہسپتال نہیں، یہ ہم سب کا اجتماعی ضمیر ہیں جو عطیات کی صورت میں زندہ ہیں۔ انہیں دئیے گئے عطیات کسی کے باپ کے کینسر کے علاج ، کسی ماں کی کیموتھراپی و سرجری کا سبب ، کسی بچے کی آنکھوں میں امید کی چمک بنتے ہیں۔ یہ عطیات کسی خاندان کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہےں ۔ یہ ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ۔
ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا، یقینا اپنی زکوٰة کے بارے میں آپ فیصلہ کر چکے ہوں گے۔ اپنی عطیات کی لسٹ میں ایسے مستند اسپتالوں کو بھی ضرور یاد رکھیے…. تاکہ کم وسائل رکھنے والے زیادہ سے زیادہ سفید پوشوں کیلئے علاج آسان ہوسکے۔