انسان کے بے درد ہونے کو منفی جذبہ سمجھا جاتا ہے، وہ انسان ہی کیا جو درد سے خالی ہو۔ اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی 71 سالہ خاتون اپنے دل میں دوسروں کا درد تو رکھتی ہے، لیکن اسے سر درد سمیت کوئی درد لاحق نہیں ہوا۔
یہ ”بے درد“ خاتون اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی، جب اسے زندگی میں پہلی بار علاج کی ضرورت پیش آئی مگر جوکیمرون (Cameron Jo) نامی یہ خاتون جینیاتی طور پر اب بھی درد سے بالکل نا آشنا ہے۔ اس لیے اس نے زندگی میں کبھی پین کلر بھی استعمال نہیں کیا، مگروہ 65 برس تک خود کو نارمل سمجھتی رہی۔ جب اس عمر میں آپریشن کے بعد بھی اسے کوئی درد نہیں ہوا تو جوکیمرون سمجھ گئی کہ وہ خاص جینیاتی تبدیلی کا شکار ہے۔ سی این این، بی بی سی اور فوکس نیوز سمیت درجنوں ذرائع ابلاغ نے اس خاتون کی حیرت انگیز داستان شائع کی ہے، جس پر ان دنوں ماہرین تحقیق کر رہے ہیں۔
جوکیمرون کو نہ صرف یہ کہ کسی قسم کے درد کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اس کی زبان پر مرچ کی جلن بھی محسوس نہیں ہوتی۔ جلن کی شدت کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ کی مرچ نونیٹ چلی (bonnet chilis) سب سے سخت ہے۔ مرچوں کی جلن کے لیے جو پیمانہ بنایا گیا ہے اسے Scoville Units کہتے ہیں۔ بونیٹ چلی کی جلن 80 ہزار سے 4 لاکھ Scoville Units ہے جبکہ میکسیکو کی جیلپینو (Jalapeno) مرچ جس کا ایک ٹکڑا چبانے سے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں Scoville اسکیل پر صرف 2500 ہے۔ جوکیمرون بچپن میں بونیٹ چلی ایسے چبایا کرتی تھی جیسے چاکلیٹ۔ جب یہ خاتون 65 برس کی ہوئی تو اسے چلنے پھرنے میں مشکل پیش آئی۔ اس وقت بھی اسے کوئی درد محسوس نہیں ہوا۔ اسپتال میں تفصیلی تجزیے پر اس کے معالج حیران رہ گئے کہ محترمہ کے کولہوں کے جوڑ بدترین بوسیدگی یا degeneration کا شکار ہوچکے تھے، لیکن اسے ہلکی سی بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ ”درد ناآشنائی“ کے اس انکشاف نے ڈاکٹرو ں کو چونکا کر رکھ دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اس کے ایک ہاتھ کا osteoarthritis کے سلسلے میں آپریشن ہوا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے بعد مریضوں کو کچھ عرصے تک درد کی جس شدت سے گزرنا ہوتا ہے، وہ عذاب سے کم نہیں، لیکن اس خاتون کو ہلکی سی بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے جوکیمرون خود ہی کہتی ہے کہ ایک بار چائے بناتے ہوئے وہ فون پر بات کررہی تھی اور بے دھیانی میں اس نے اپنی ایک انگلی جلتے چولہے پر رکھ دی۔ اپنی اس غلطی کا احساس اس کو اس وقت ہوا جب کھال جلنے کی بو آئی۔ دردسے ناآشنا ہونے کے ساتھ یہ بڑی بی بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہیں اور انہیں کسی بھی مشکل وقت میں گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ انہوں نے کئی جان لیوا ٹریفک حادثات دیکھے ہیں، لیکن خوف یا فرطِ جذبات سے بے ہوش ہونا تو دور کی بات، اُن کی دل کی حرکت بھی ناہموار نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ”چونکہ مجھے جلنے کا احساس نہیں ہوتا، اس لئے اکثر اوقات میں اوون میں اپنا بازو جلا بیٹھتی ہوں۔“ یہ اس لئے ہے کیونکہ وہ کرئہ ارض پر موجود ان دو لوگوں میں سے ایک ہیں جن میں نایاب جینیاتی تبدیلی پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر انہیں درد محسوس نہیں ہوتا اور انہوں نے کبھی بے چینی یا خوف بھی محسوس نہیں کیا۔ مذکورہ آپریشن سے پہلے جو کیمرون کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کوئی خاص انسان ہیں۔
آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے طاقتور پین کلرز تجویز کئے تھے، لیکن جب انہیں کچھ محسوس نہیں ہوا تو ڈاکٹروں کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ پھر جب اس نے دوا بھی نہیں لی تو اس کے اینیستھیٹسٹ ڈاکٹر دیوجیت شری واستا نے اسے یونیورسٹی کالج آف لندن (یو سی ایل) اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں درد کے جینیاتی ماہرین کے پاس بھیجا۔ مختلف ٹیسٹ کرانے کے بعد ماہرین کو جوکیمرون میں جین کی تبدیلی کا پتا چلا، جس کا مطلب تھا کہ اسے دوسروں کی طرح درد محسوس نہیں ہوتا۔ جو کیمرون کا کہنا ہے کہ ہم نے آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل مذاق کیا، جب میں نے ضمانت دی کہ مجھے دردکش گولیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ میں نے کوئی دردکش گولی نہیں لی تو انہوں نے میرے میڈیکل ریکارڈ کا معائنہ کیا اور تب انہیں پتا چلا کہ میں نے کبھی دردکش گولیاں نہیں مانگیں۔ اس کے بعد انہیں برطانیہ میں ماہرین کے پاس بھیجا گیا۔
ایک بار تشخیص ہونے کہ بعد جو کیمرون کو معلوم ہوا کہ وہ ”ناقابل یقین حد تک صحت مند“ نہیں، جیسا کہ اسے یقین تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ جب میں مڑ کر پیچھے دیکھتی ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ مجھے کبھی بھی دردکش گولیوں کی ضرورت نہیں پڑی، لیکن اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں پڑتی تو آپ یہ سوال بھی نہیں کرتے کہ آپ کو کیوں ضرورت نہیں پڑ رہی۔ جب تک کہ کوئی اس چیز کی نشاندہی نہ کرے، آپ بھی اس بارے میں سوال نہیں کرتے۔ میں ایک خوش مزاج شخصیت تھی جس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرے بار ے میں کچھ مختلف ہے۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے بچوں کی ڈیلیوری کے وقت بھی کوئی درد محسوس نہیں ہوا تھا۔ یہ واقعی بہت خوشگوار تھا۔ اب جوکیمرون کو درد کی ضرورت کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ درد کے پیچھے کوئی وجہ ہے، یہ آپ کو متنبہ کرتا ہے اور آپ الارم کی گھنٹیاں سنتے ہیں۔
جب کچھ غلط ہو تو اس کے بارے میں انتباہ اچھا ہوگا۔ مجھے پتہ نہیں چلا میرا پٹھا ختم ہوگیا ہے، جب تک کہ وہ واقعی ختم نہیں ہوگیا، جسمانی طور پر میں آرتھرائٹس کے ساتھ نہیں چل سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ عام طور پر شفا یاب ہونے کے لیے جتنا وقت درکار ہوتا ہے، شاید جو کیمرون اس سے کہیں زیادہ تیزی سے شفا حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ جینز کا یہ خاص مجموعہ اسے بھولکڑ اور کم بے چین بناتا ہے۔ اسے خوشی کا جین یا بھول جانے والا جین کہتے ہیں۔ بے درد خاتون کا کہنا ہے کہ ”میں اپنی پوری زندگی خوش اور بھولکڑ ہونے کے باعث لوگوں کو پریشان کرتی رہی ہوں۔ اب مجھے ایک بہانہ مل گیا ہے۔“ جو کیمرون نے بتایا کہ حال ہی اس کی گاڑی کو معمولی ٹکر لگی تھی، دوسرے لوگوں کے لیے یہ ایک پریشان کن تجربہ ہوتا، لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ مجھ میں ایڈرینالین (جو دوران خون میں اثر انداز ہو کر ہیجان پیدا کرتا ہے) نہیں ہے۔ آپ کو خطرے کا احساس ہونا چاہیے، یہ انسان ہونے کے لیے ضروری ہے، لیکن میں اسے تبدیل نہیں کروں گی۔ اس حادثے کے دوران دوسرا ڈرائیور بری طرح کانپ رہا تھا، لیکن میں بالکل پرسکون تھی۔ مجھے اس ردِعمل کی سمجھ نہیں آتی۔ یہ بہادری نہیں ہے، لیکن مجھے خوف نہیں آتا۔
محققین کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے جوکیمرون جیسے اور افراد بھی دنیا میں ہوں۔ ڈاکٹر دیوجیت شری واستا کہتے ہیں ”درد کش ادویات میں تمام تر ترقی کے باوجود آج بھی سرجری کے بعد دو مریضوں میں سے ایک درمیانے درجے سے شدید درد کا تجربہ کرتا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ہمارے نتائج کی بنا پر کوئی نیا علاج تیار کیا جا سکتا ہے۔ نتائج ایک نایاب درد شکن کی دریافت کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جو ممکنہ طور پر سرجری کے بعد درد سے آرام اور زخم کو جلدی بھرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے ان 330 ملین مریضوں کو مدد مل سکتی ہے جو ہر سال دنیا بھر میں سرجری سے گزرتے ہیں۔“
جو کیمرون کا کیس برٹش جرنل آف انیستھیزیا میں شائع ہونے والے پیپر کا موضوع ہے، جس کے مصنف یونیورسٹی کالج آف لندن کے ڈاکٹر شری واستا اور ڈاکٹر جیمز کوکس ہیں۔ ڈاکٹر کوکس کا کہنا ہے کہ ”درد محسوس نہ کرنے والے افراد طبی تحقیق کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، ایسے افراد سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جینیاتی تبدیلیاں، درد محسوس کرنے پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسے افراد جنہیں درد محسوس نہیں ہوتا، ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ سامنے آئیں۔ ہمیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ ہمارے نتائج سرجری کے بعد ہونے والے درد، بے چینی، ممکنہ طور پر شدید درد، پی ٹی ایس ڈی اور زخموں کے بھرنے کے لیے کی جانے والی کلینکل ریسرچ میں مددگار ثابت ہوں گے۔“