عالمی و علاقائی قوتیں شامی بغاوت کی حمایت کرنے لگیں (علی ہلال)

شام کے مغربی ساحلی علاقوں اللاذقیہ اور طرطوس میں مفرور صدر بشار الاسد کی باقیات کی جانب سے شامی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش میں 70 سے زائد افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔شامی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق اللاذقیہ کے شہر جبلہ میں سرکاری فورسز کے 6 اہلکاروں کو گھات لگائے عناصر نے گولی مارکر قتل کیا تھا، جس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں مزید 13 اہلکار جان کی بازی ہارگئے ہیں۔

جمعرات کو بشار الاسد کی باقیات نے اللاذقیہ کے مختلف علاقوں میں اچانک بغاوت کی کوشش شروع کرتے ہوئے سرکاری فورسز کے کانوائے پر حملے کیے، جس کی دیکھا دیکھی بغاوت کا یہ دائرہ طرطوس تک پھیل گیا۔ اللاذقیہ کے پبلک سیکورٹی ڈائریکٹر لیفٹیننٹ مصطفی کنیفاتی نے بتایا کہ جمعرات کو بغاوت کی ابتداءجبلہ شہر اور اطراف کے علاقوں میں اُس وقت ہوئی جب علاقے میں قائم تمام چیک پوسٹوں پر بیک وقت بشار الاسد کے حامیوں نصیری اور علوی گروپوں کے افراد نے مسلح حملے شروع کیے۔ یہ ایک منظم اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا جس کے تحت باقاعدہ تیاری کے ساتھ کارروائیاں کی گئیں۔ ابتدا میں طرطوس میں ایک نیول کیڈٹ کالج پر بھی باغیوں نے قبضہ کیا تھا۔
رات گئے شامی وزارت دفاع نے بھاری تعداد میں فورسز اور اسلحہ کے ذخائر بھیج دیے اور منظم آپریشن شروع کردیا۔ اس بغاوت کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا دی جارہی تھی۔ غلط پروپیگنڈا اور جھوٹی معلومات دیتے ہوئے سرکاری فورسز کے حوصلے پست کرنے اور باغی عناصر کو اکسانے کی کوشش کی گئی، تاہم اس دوران ملک بھر کے تمام صوبوں میں شامی عوام نے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے سڑکوں پر آکر اپنی یکجہتی کا اظہار کیا جس سے بغاوتی عناصر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق اس بغاوت کی سربراہی دو گروپس کررہے ہیں، ایک ملٹری کونسل فار لبریشن دی سوریا اور دوسرا گروپ لواءدرع الساحل ہے۔ ملٹری کونسل فار لبریشن غیاث سلیمان دلا نامی شخص کررہا ہے، جو بشارالاسد کے بھائی ماہرالاسد کے زیر کمانڈ اسدی فوج کے فورتھ ڈویژن کے بریگیڈ 42 کا کمانڈر تھا۔

2017ء میں دلا نے قوات الغیث کے نام سے اسپیشل گروپ بھی قائم کیا تھا۔ سلیمان دلا شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران کئی بڑے قتل عام کی کارروائیوں میں شریک تھا، جن میں غوطہ دمشق، معظمیہ قتل عام اور داریا قتل عام نمایاں ہیں۔سلیمان دلا ایرانی پاسداران انقلاب کا اہم شخص تھا۔ اس کے ایرانی ملیشیا گروپوں اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ تعلقات اور مشترکہ کارروائیاں مشہور تھیں۔ اگست 2020ء میں امریکا نے سلیمان غیاث دلا پر پابندیاں عائد کردیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے شام میں ہونے والی جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے سویلین کے قتل کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ 6 مارچ 2025ء کو سلیمان دلا نے اپنی اس نئی باغی کونسل کے قیام کا اعلان کیا جس کے ساتھ ہی اس نے ساحلی علاقوں میں بغاوت بپا کردی۔
مذکورہ کونسل کے علاوہ لواءدرع الساحل نامی باغی گروپ سرفہرست ہے، جس کی قیادت مقداد فتیحہ نامی اسدی کمانڈر کررہا ہے۔ مقداد فتیحہ مفرور بشارالاسد کی ریپبلکن گارڈ میں کمانڈر تھے۔ اس نے فروری میں لواءدرع الساحل کے قیام کا اعلان کیا، جب اسرائیلی وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام نے شام میں اقلیتوں کے تحفظ کے بیانات دیے اور شام کے جنوبی صوبوں میں فوجی مداخلت کی۔ لواءدرع الساحل نے 26 فروری کو بشارالاسد کے آبائی علاقے القرداحہ میں فورسز کی چھاو¿نیوں اور چیک پوائنٹس پر حملوں کی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔
مذکورہ اِن دونوں گروپوں کا قیام شام میں اسرائیلی مداخلت کے بعد ہوا ہے، جس کے باعث شامی عوام کو بروقت اندازہ ہوگیا کہ اس بغاوت کے پیچھے کونسے خارجی و علاقائی عناصر کھڑے ہیں۔شام کے بارے میں تحقیقاتی کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس بغاوت کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کھڑے ہیں، جس کا اظہار لبنان کے دروزی رہنما ولید جنبلاط کرچکے ہیں۔ ولید جنبلاط کے مطابق اسرائیل میں رہنے والے دروز کے روحانی پیشوا موفق طریف نے خود کو شام اور لبنان کے دروز کا نمائندہ باور کرایا ہے، جس کے پیچھے اسرائیل کھڑا ہے۔ موفق طریف نے شام کے سویداءمیں دروز کے روحانی سربراہ حکمت ہجری کو اعتماد میں لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فروری میں شامی دروز کے روحانی پیشوا حکمت ہجری کی امریکی نمائندوں کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے، جس میں یہ طے ہوگیا ہے کہ شامی دروز امریکی حمایت یافتہ کرد ڈیموکریٹک فورسز اور ساحل کے علوی اور نصیری گروپوں کے ساتھ مل کر مسلح بغاوت شروع کریں گے، جس کا ساتھ دینے کے لیے اسرائیل اور امریکا آئیں گے۔ ولید جنبلاط نے اس منصوبے کے خلاف اقدامات شروع کردیے ہیں۔
اسرائیل کے کھل کر سامنے آنے کے بعد بشار الاسد کی باقیات اور ایرانی گروپوں نے ساحل سے آغاز کردیا ہے۔ شامی میڈیا کے مطابق شامی حکومت کے خلاف ساحلی علاقوں میں نصیری بغاوت کے خلاف شام بھر سے سرکاری فورسز کی حمایت کے لیے 5 لاکھ مسلح رضاکاروں نے رجسٹریشن کرکے میدان سنبھال لیا ہے۔ اس وقت اللاذقیہ اور طرطوس میں درع الساحل اور ملٹری کونسل فار لبریشن نامی باغی گروہوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ سرکاری فورسز طرطوس کے نیول کالج کا قبضہ چھڑوانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ بغاوت سے متعلق شامی انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ ساحل میں لڑنے والے باغیوں کو فی بندہ 800 ڈالر کی تنخواہ دی جارہی تھی اور یہ تمام فنڈنگ مشرقی صوبہ الرقہ سے ہوتی رہی جو کرد باغیوں اور نصیریوں کے درمیان مشترکہ گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے۔ بغاوت کچلنے کے بعد کرد ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے لیے ترکی نے بھاری ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی ہے۔
شامی بغاوت کے بارے بیان جاری کرتے ہوئے سعودی عرب نے اس سازش کی مذمت کی ہے اور کہاہے کہ مجرم عناصر ہیں جنہیں بیرونی مدد حاصل ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی افطار پارٹی سے خطاب میں کہاہے کہ ترکی، شام اور علاقے کی تقسیم کے منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ شامی انٹیلی جنس چیف نے کہاہے کہ بغاوت پر قابو پاچکے ہیں اور اب ملک میں ہر وہ شخص مجرم اور غیرملکی ایجنٹ تصور کیا جائے گا جو غیرقانونی ہتھیار رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم گروپوں کے خلاف بھی سخت آپریشن شروع کرنے کا بیان سامنے آیا ہے اور انتباہ کردیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی مسلح حرکت کی حمایت یا اس کے لیے اکسانے کو ملک سے غداری اور سنگین جرم قرار دیا جائے گا۔