شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے پوتے، شہید ناموس رسالت حضرت مولانا سمیع الحقؒ کے فرزند اکبر جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ، جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم، رابطہ عالم اسلامی کے مشیر، سابقہ ممبر قومی اسمبلی، اعلیٰ اخلاق وکردار کے آئینہ دار، تواضع اور ملنساری کے خوگر، نادار اور غریب لوگوں سے حددرجہ محبت کرنے والے، حق گو وبے باک رہنما، دنیا بھر میں حریت وآزادی کے تحاریک کے پشتیبان، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار، میرے تایازاد اور برادر نسبتی حضرت مولانا حامد الحق حقانی کو جمعہ 28 فروری 2025ء کو بعد از نماز جمعہ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد کے دروازے میں ظہر کو 2 بجے ظالموں نے بڑی بے دردی کے ساتھ دھماکے میں دیگر 5 افراد کی ساتھ شہید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللھم اغفر لھم وارحم علیہم آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
شہداءکے اسماءگرامی: دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں ہونے والے خطرناک دھماکے کی آواز میلوں تک سنائی گئی۔ مولانا حامدالحق شہید رہائش گاہ کے سامنے مسجد کے دروازے میں نماز کی ادائیگی کے بعد نکل رہے تھے کہ اس دوران یہ دھماکا کیا گیا۔ اس حادثے میں دارالعلوم حقانیہ کے شعبہ حفظ کے نگران مولانا قاری شفیع اللہ صاحب کے معصوم فرزند، مجذوب شاکراللہ، دارالعلوم حقانیہ سے عقیدت رکھنے والے غریب رنگساز، کتابی ذوق کے حامل ضلع صوابی کے گاو¿ں جلسئی سے تعلق رکھنے والے جناب تجمل خان، اکوڑہ خٹک کے قریب دریا پار علاقہ ترلاندی سے تعلق رکھنے والے حقانیہ کے عقیدت مند جناب شیر داد صاحب، مولانا حامدالحق شہیدؒ کے جگری دوست قدیم محلہ ککے زئی کے رہائشی جناب تنویر افضل جان اور سب انسپکٹر ریلوے پولیس ملک بخشش الٰہی مرحوم کے فرزند ملک اشتیاق بھی شہادت پا گئے۔
شہید مولانا حامدالحق کی کیفیت: جن بدبختوں اور شقی القلب لوگوں نے یہ گھناونی حرکت کی ہے وہ انسان نام رکھنے کے بھی مستحق نہیں۔ مولانا حامد الحق حملے میں نشانہ تھے۔ دشمن ان کی جان لینے میں بظاہر کامیاب ہوئے لیکن درحقیقت انہوں نے دنیا وآخرت کا خسارہ مول لیا۔ مولانا حامدالحق کو فوری طبی امداد کے لیے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال نوشہرہ پہنچایا گیا لیکن طبی ماہرین کاکہنا تھا کہ وہ موقع پر شہادت پاگئے تھے۔ اس خطرناک دھماکے میں جسے خودکش قرار دیا گیا ہے باوجود بھاری بارود کے مولانا شہید کا بدن سر کے بالوں سے پاوں کے ناخن تک مکمل سالم تھا۔ یعنی کوئی عضو یا حصہ علیحدہ نہیں ہوا۔ اس پر یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ ان کی پس از مرگ کرامت ہی تھی۔ جسم اور پیٹ میں بارودی چھرے لگنے اور زخموں کے سبب ان کی شہادت واقع ہوئی۔ مولانا حامدالحقؒ کے بڑے فرزند مولانا عبدالحق ثانی اس حادثے میں مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے تھے اور اس طرح وہ بفضل اللہ تعالیٰ محفوظ رہے۔ لیکن ان کی ناک پر زخم لگا، ان کے چھوٹے فرزند حافظ محمد احمد بحمداللہ محفوظ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی شہادت کی خبر غلط چلی۔
مسجد میں مخصوص جگہ دائیں جانب پہلے صف میں جہاں مولانا حامدالحق نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے۔ اس احاطہ میں ہمارے خاندان کے تقریباً جملہ لوگ جو کہ چھوٹوں، بڑوں سمیت 15 افراد تک پر مشتمل ہوتے، نماز میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے باقی سب کو اپنے فضل وکرم کے طفیل بچا لیا۔ مولانا حامدالحق شہادت کی خلعت فاخرہ پاکر جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوچلے۔ ان کا ناگہانی سانحہ بہت بڑے غم وکرب وافسوس کا باعث ہے۔ لیکن رضا مولیٰ ازہمہ اولیٰ!
واقعے کے وقت احقر اتفاقاً ایک جنازہ میں شرکت کی غرض سے قریبی مسجد میں 2 بجے سے قبل ہی نماز پڑھنے چلا گیا تھا۔ فارغ ہوکر آیا تو مسجد میں خطبہ کی آواز سن کر گھر میں بیٹوں کو بھی نماز کے لیے بھیج دیا۔ احقر نے گھر میں ہی ہولناک دھماکے کی آواز سنی توفوراً دارالعلوم دوڑ کر آیاجہاں بڑی بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ یہاں دارالحدیث کے سامنے دو تین لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ انسانی بدن کے چھیتڑے دیواروں، چھتوں، زمین پر دور دور تک نظر آ رہے تھے۔ دل دھلادینے والی اس کیفیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں تھی۔ میری ذہنی کیفیت بالکل ابتر تھی۔ صحن میں ادھر ادھر دیوانہ وار چکریں کاٹ رہا تھا کہ یہ کیا قیامت خیز منظر ہے۔ اکوڑہ خٹک کے بعض ساتھی مجھے پکڑ کر مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی رہائش گاہ کی طرف لے گئے۔ وہاں جاکر بے چینی اور بڑھ گئی، کبھی اٹھتا، کبھی بیٹھتا، کبھی گیٹ کی طرف جا لپکتا، ہسپتال جاکر صورتحال دیکھنے کابھی خواہاں تھا۔ لیکن میری حالت اور ہوش وحواس کے صورتحال کی بناءپر حفاظتی و سیکیورٹی اہل کاروں نے باہر جانے سے منع کر دیا۔ اسی دوران سخت پریشانی میں برادرم مولانا اسامہ سمیع الحق سے موبائل پر رابطہ ہوا جنہوں نے بتایا کہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ بھائی جان شہید ہو چکے ہیں۔ اس بات کے سنتے ہی ایسا لگا جسے دل اور کلیجہ کسی نے چیر دیا ہو۔
رات کو تقریباً ایک بجے جس خاکی کو ہم ایمبولینس کے ذریعے اکوڑہ خٹک لائے۔ ہسپتال کے اہلکاروں نے انہیں غسل وکفن دے کر میت ہمیں حوالے کیا۔ مولانا راشدالحق کے گھر کے تہہ خانہ میں ان کو دوبارہ غسل دیا گیا۔ راقم الحروف کو غسل دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مولانا عبدالحق ثانی، مولانا راشدالحق، مولانا ظفر زمان، مولانا لقمان الحق، مولانااسامہ سمیع، مولانا خزیمہ سمیع، جناب اعجاز حسین، جناب نورحبیب صاحبان میرے معاون تھے۔ جنازہ اگلے روز گیارہ بجے طویل غور خوض کے بعد دارالعلوم حقانیہ میں ہی رکھا گیا۔
عمومی دیدار و زیارت اور نظم کے بندھن غیر موثر: ان کی زیارت کے لیے صبح دس بجے کا ٹائم مقرر ہوا، دیگر تین شہداءکو بھی ان کے ساتھ جنازہ پڑھوانے کے لیے دارالعلوم لایا گیا۔ دارالعلوم میں ان کے شہادت کے بعد ہزاروں لوگ تعزیت کے لیے جوق درجوق آنے لگے۔ دارالحدیث ہال میں تعزیتی نشست بنائی گئی۔ علماءوزعمائ، سیاسی لیڈران اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے نمائندگان فاتحہ خوانی اور تعزیتی کلمات بھی پیش کرتے رہے۔ راقم نے خانوادہ شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کرنے کا فریضہ نبھایا۔ لاکھوں لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے نظم وضبط کا مضبوط نظام بھی غیرموثر رہا۔ سکیورٹی اہلکاروں، مقامی انتظامیہ، ضلعی وصوبائی ایڈمنسٹریشن نے نظم کے لیے بھرپور جتن کیے، لیکن ہر کوئی دیوانہ وار شہید کی زیارت کے لیے بے صبری کامظاہرہ کرنے پر مجبور نظر آرہاتھا۔ تدفین اپنے والد کے پہلو اور والدہ کے پاوں میں کی گئی۔ قبر میں اتارنے کی سعادت مولانا مفتی غلام قادر حقانی، احقر عرفان الحق، حافظ احمد خیار قاسمی، حافظ محمد احمد نے حاصل کی۔
جنازہ کی امامت وتدفین:خاندانی مشاور ت کے تحت ان کے فرزند مولانا عبدالحق ثانی نے جنازہ پڑھایا۔ مسجد سے جائے تدفین تک چند سو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پون گھنٹہ لگا۔ اس سے آپ قارئین لوگوں کی عقیدت ومحبت اور کثرت کا اندازہ لگائیے۔ خانوادہ شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے اتفاق رائے سے مولانا راشدالحق کو ان کی جگہ نائب مہتمم مقرر کیا گیا۔ اس کی تائید جنازہ کے موقع پر لاکھوں علماء و طلبہ اور عوام الناس سے بھی لی گئی۔ (جاری ہے)
