وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے کردار کی ستائش پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں امریکا کو نہایت مطلوب اور دہشت گرد تنظیم داعش خراساں کے علاقائی کمانڈر شریف اللہ کی گرفتاری میں معاونت کرنے پر پاکستان کے کردار کو سراہا تھا۔
مذکورہ شخص کابل سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت ان پر حملے کا مرتکب تھا حالانکہ امریکی افواج افغان طالبان کے ساتھ دوستانہ معاہدے کے بعد وہاں سے انہی کی حفاظت میں انخلا کر رہی تھیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے بھی نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے ساتھ مواصلاتی رابطے کے ذریعے حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
حالیہ پیش رفت کو دونوں ریاستوں کے درمیان بہتر تعلقات میں ایک اہم مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق داعشی کمانڈر کی گرفتاری پاک، افغان سرحد کے قریب سے عمل میں لائی گئی ہے اور اس سلسلے میں پاک فوج اور امریکی اسپیشل سروسز نے مشترکہ آپریشن کیا تھا۔ یہ کارروائی پاک فوج کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس سلسلے میں امریکی عسکری ماہرین پہلے ہی سے پاک فوج کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ کارروائی عین اس وقت عمل میں لائی گئی جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کانگریس سے پہلا خطاب کرنے والے تھے۔ پاک، امریکا تعلقات میں حالیہ پیش رفت کن مضمرات و عواقب یا مفید نتائج کا سبب ہو سکتی ہے؟
اس سوال کا جائزہ علاقائی منظر نامے کے پہلو سے بھی لینا چاہیے۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان ایک خطرناک کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ شدت پسند گروہوں کا اصرار ہے کہ وہ بہر صورت پاک فوج کو طاقت کے بل پر جھکا کر (خدانخواستہ) پاکستان کو شکست و ریخت سے دوچار اور ایک بڑے علاقے پر اپنی عمل داری قائم کرلیں گے۔ ان گروہوں کو نہ ہی عوام کے جان ومال کو لاحق نقصانات کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی نظمِ اجتماعی سے متعلق شریعت کے احکام کی پروا ہے۔ ماضی کے خوارج کی مانند محدود شریعت کے ناقص ترین فہم اور قبائلی تعصب کے ساتھ وہ پاکستان کو جھکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ افغان جنگوں کے طویل دورانیے میں پاکستانی ریاست اور قوم نے ماسوائے چند غلطیوں کے، افغانیوں کا ہر ممکن ساتھ دیا ہے۔ افغان طالبان کو اقتدار تک پہنچانے میں اسباب و وسائل کی حد تک اہلِ وطن کا اہم ترین کردار ہے جس کا انکار عدل و انصاف کا انکار ہوگا۔ امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلا ف لڑی جانے والی نام نہاد بیس سالہ طویل جنگ میں پاکستانیوں کا لہو مسلسل بہتا رہا ہے۔
پختون علاقے خصوصی طورپر دہشت گردی، بم دھماکوں اور خوں ریز کارروائیوں کی زد میں رہے اور قتل و غارت گری کا یہ اندوہ ناک سلسلہ بنوں کینٹ حملے کی صورت میں آج تک جاری ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس تباہی، ہلاکت اور خونریزی کا حالیہ سلسلہ افغان سرزمین سے جڑا ہوا ہے جہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوے دار قیادت کی حکمرانی ہے۔ نفاذ شریعت کا لازمی تقاضا امن وسلامتی کا قیام تھا۔ یہ ایک وعدہ تھا جو پورا نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کے برعکس رویے کے ذریعے دنیا کو منفی پیغا م دیا جا رہا ہے کہ ہم نہ خود امن سے رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو امن سے رہنے دیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں پاکستان کے لیے ماضی کی افغان قیادت یا موجودہ قیادت کے درمیان کوئی جوہری فرق باقی نہیں رہتا۔
امرِ واقع یہ ہے کہ یہ دہشت گردی، پاکستان پر مسلسل حملے، انتقام کے نعرے اور نام نہاد علاقائی و لسانی غیرت دراصل سیاست ہی کا ایک طریقہ ہے جسے دین ومذہب کا تقاضا بنا کر سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ اور ان کی جوانیوں کو ایک لاحاصل، بے مقصد اور نتائج سے عاری جنگ میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ فتنہ خوارج سے تعلق رکھنے والے تمام گروہ اس بنیادی فرق کو نہیں سمجھ پا رہے کہ کفار سے متعلق آیات و احکام کو مسلمانوں پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مسلکی و گروہی نظریات سے اتفاق نہ رکھنے والوں پر ارتدار کا حکم صادرکیا جا سکتا ہے۔ مختلف فیہ مسائل میں نزاع کی وجہ سے مسلمانوں کے قتل کو درست سمجھنا خوارج ہونے کی علامت ہے اور یہ وہ فتنہ ہے جس نے صدیوں پہلے بھی امتِ مسلمہ کو داخلی عدم استحکام میں مبتلا کیا تھا اور آ ج بھی فتنہ و فساد کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ کھیل عالمی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے۔ امریکا جو ایک مطلوب کمانڈر کی گرفتاری پر پاکستان کو تھپکی دے رہا ہے وہی اس وقت افغان طالبان کو بھی بھاری امداد فراہم کر رہا ہے اور یہ امریکی اسلحہ ہی ہے جو کہ پاکستان کے مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ امر قابلِ غور نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغان طالبان کے پاس موجود امریکی اسلحے کی واپسی کا عندیہ سامنے آتے ہی پاکستان کے خلاف فتنہ خوارج کے حملوں میں شدت برپا ہوگئی ہے؟
جہاں تک پاک، امریکا تعلقات میں حالیہ پیش رفت کا تعلق ہے تو وطنِ عزیز کی قیادت کو یوکرین اور اس کے بے بصیرت حکمران زیلنکسی کا حال یاد رکھنا چاہیے۔ ماضی کے تجربات بھی اس امر پر شاہد ہیں کہ امریکی تھپکیاں اور ستائش پاکستان کے لیے زیادہ مسائل اور مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ دہشت گردی، فتنہ خوارج اور اس مسئلے سے جڑے دیگر سنگین مسائل امریکی جنگ میں کود پڑنے کا نتیجہ ہی ہیں۔ اب یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا امریکا علاقائی صورت حال سے یکسر لاتعلق ہوگیا ہے۔ افغانستان میں اپنے ذرائع کی مدد سے ایک مطلوب فرد کی نقل و حرکت تک رسائی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پڑوسی ملک میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والی طاقتیں اس وقت بھی موجود ہیں جو کسی بھی وقت اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ عالمی ایجنسیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس خطے کو نظر انداز نہیں کیا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی مسائل کو مصلحت، حکمت و بصیرت اور دوراندیشی کے ساتھ ہی حل کیا جائے۔ امریکا کی جانب سے امداد یا تعاون کی لالچ کی بجائے علاقائی سطح پر باہمی تعاون اور قریبی دوست ممالک کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے افغان عبوری حکومت کو بات چیت، مصالحت اور گفت و شنید کی میز پر لایا جائے۔ پاکستان کو امریکی تھپکیوں کی وجہ سے شاید آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں سہولت مل جائے لیکن ایک قوم یا ایک ریاست کے طور پر وہ عزت و افتخار حاصل نہیں ہو سکتا جو اپنے زورِ بازو، اپنی عقل و دانش اور اپنے عقائد پر عمل کے ذریعے نصیب ہو سکتا ہے۔