غزہ کیلئے عرب پلان اور اگلا مرحلہ

عرب ممالک نے ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے مصر کے متبادل منصوبے کی حمایت کر دی۔

منگل کو قاہرہ میں عرب لیگ کا غیرمعمولی سربراہ اجلاس ہواجس میں غزہ کی تعمیر نو اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کیا گیا، اجلاس کا مقصد ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے منصوبے کے خلاف مشترکہ عرب موقف اپنانا تھا۔ اس موقع پر مصر نے ٹرمپ پلان مسترد کرتے ہوئے غزہ کی تعمیر نو کیلئے ایک ایسا منصوبہ پیش کرنے کا اعلان کیا جو فلسطینیوں کے حقوق کا احترام کرے اور انہیں ان کی سرزمین پر برقرار رکھے گا۔ 53 ارب ڈالر کے مجوزہ 5 سالہ منصوبے میں لاکھوں مکانات، تجارتی بندرگاہ اور ائیرپورٹ کی تعمیر شامل ہے جبکہ فلسطینی علاقوں میں انتخابات اور دو ریاستی حل کی کوششیں بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

گزشتہ ماہ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل خالی کرنے کا پلان سامنے آیا تو پوری دنیا میں سناٹا چھا گیا۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا، جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ہوش و حواس رکھنے اور بین الاقوامی قوانین سے واقف شخص اس طرح کی کوئی تجویز پیش کرسکتا ہے۔ یہ اس قدر مضحکہ خیز اور بچگانہ پلان تھا کہ شاید امریکا کے لے پالک اسرائیل نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ یہ پلان سامنے آتے ہی اسے اقوام متحدہ، یورپی یونین، مسلم دنیا سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بھی یکسر مسترد اور ناقابل عمل قرار دیا۔ پوری دنیا اسے مذاق ہی سمجھتی مگر ٹرمپ کی جانب سے اس پر بچگانہ انداز میں اصرار سامنے آیا اور وہ متعدد بار مرغ کی ایک ٹانگ کی طرح اپنے اس ”خیالی پلاؤ” پر اڑے دکھائی دے تو دنیا کو یقین آگیا کہ یہ مزاحیہ تو نہیں، البتہ فتوری منصوبہ ٹرمپ کا ایک سنجیدہ پلان ہے۔ اب اس حوالے سے دو کام درپیش تھے۔ ایک یہ کہ اس پلان کو عرب دنیا بالخصوص فلسطین کے ہمسایہ مصر اور اردن کس نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہے، دوسرا یہ کہ عرب دنیا کے پاس اس کا متبادل پلان کیا ہے۔ پہلا کام تو فوری ہوگیا۔ مصر اور اردن سمیت پوری عرب برادری نے بہ یک زبان ٹرمپ پلان ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کردیا اور اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ مراکش سے ریاض تک عرب دنیا کیا سوچ رہی ہے۔ سب کی سوچ واضح اور دوٹوک ہوکر سامنے آگئی کہ عرب دنیا غزہ کیلئے ٹرمپ پلان جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔

زبانی کلامی ٹرمپ رد ہونے کے بعد اب دوسرا کام یہ تھا کہ اگر ٹرمپ کا پلان منظور نہیں تو عرب دنیا بالخصوص مصر اور اردن کے پاس غزہ کیلئے متبادل کیا منصوبہ اور خاکہ ہے؟ یہ ایک بڑا چیلنج اور دباؤ تھا۔ مصر اس صورتحال میں آگے بڑھا اور نہ صرف یہ چیلنج قبول کیا بلکہ بہت ہی مختصر مدت میں ٹرمپ کے فتوری پلان کا ایک جامع اور معقول متبادل تیار کرلیا، جس پر مصری قیادت بلاشبہ تحسین کی مستحق ہے۔ قاہرہ میں گزشتہ روز عرب لیگ کا سربراہی اجلاس ہوا تو مصر نے اپنا متبادل پلان پیش کردیا جسے پوری عرب برادری نے متفقہ منظور کرکے اس پر مہر تائید ثبت کردی۔ اب یہ مصر کا نہیں بلکہ پوری عرب دنیا کا متبادل پلان ہے اور یہ ایسا پلان ہے جس پر فلسطینیوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ٹرمپ پلان اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کے بہانوں، دھمکیوں اور منصوبہ بندیوں کے کھل کر آشکار ہونے کے بعد امت مسلمہ بالخصوص عرب دنیا کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج تھا کہ وہ کس طرح اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ آیاعرب حکمران پہلے کی طرح منقار زیر پر ڈال کر حالات کا تماشا دیکھتے ہیں یا آگے بڑھ کر القدس اور سرزمین انبیاء کے دفاع کی اس جنگ میں اسرائیلی جارحیت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ قاہرہ اجلاس سے اسرائیل کیخلاف ٹھوس اقدامات کی امیدیں من و عن پوری نہیں ہوئیں، تاہم یہ امر بھی غنیمت ہے کہ عرب دنیا نے متحد ہوکر پوری جرأت سے غزہ کیلئے ٹرمپ پلان مسترد کردیا اور اس کے متبادل کے طور پر ایک معقول پلان پیش کردیا۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ عرب دنیا نہ صرف احساس ذمے داری رکھتی ہے بلکہ اس کے پاس متبادل منصوبہ بندی کا وژن بھی موجود ہے۔

قاہرہ اجلاس کے بعد اب دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ او آئی سی کا اجلاس بلا کر عرب دنیا کے اس غزہ پلان کو پوری مسلم دنیا کا پلان بنا کر پیش کیا جائے اور اس کے بعد اگلے مرحلے میں اس پلان پر عمل درآمد کیلئے بھرپور سفارتی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے دوبارہ جنگ مسلط کرنے کے حیلے بہانوں پر اسے متفقہ طور پر شٹ اپ کال دیا جائے اور اسے بتایا جائے کہ انسانیت کی یہ خونریزی مزید برداشت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اسرائیل شام میں بھی اشتعال انگیز کارروائیاں اور قبضے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب عرب دنیا اور مسلم امہ کیلئے واضح چیلنج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے متفقہ اور بروقت فیصلے کیے جائیں، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ مسلم امہ کی مکمل رسوائی کی شکل میں سامنے آئے گا اور پھر تلافی کی کوئی صورت بھی نہیں ہوگی۔

فتنۂ خوارج کے خلاف قوم متحد ہو

بنوں کینٹ پر خوارج کے ناکام حملے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو کمزور کرنے کی سازشیں مسلسل جاری ہیں۔ دہشت گردوں نے افطار کے وقت بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر پاکستان کی بہادر فورسز کی بروقت کارروائی نے ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے۔ اس سے قبل وزیرستان میں دہشت گردی کی ایک کوشش کو پاک فوج نے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ناکام بنا دیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت افغان فوج کے اہلکاروں کے طور پر ہوئی، جس سے اس حقیقت کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان پر دراندازی کے الزامات بے بنیاد نہیں ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے، لیکن بدقسمتی سے وہاں سے کسی مثبت ردعمل کی امید نظر نہیں آتی۔ یہ حملے محض پاکستان کیخلاف نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن کیلئے خطرہ ہیں۔ اگر افغانستان کی حکومت اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیتی تو خطے میں استحکام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ قوم اپنی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہو اور حکومت اس مسئلے کا پائیدار حل نکالنے کیلئے ٹھوس کوششوں کا آغاز کرے۔