’مجدل شمس‘ نامی شام کے اسٹرٹیجک مقام کو اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں میں ضم کیا ہے، اس پر اسرائیلی فوجی بکتر بند گاڑیاں کھڑی ہیں۔ اس علاقے کی سرحد شام سے ملتی ہے اور یہ دروز گاوں کے قریب ہے۔ دسمبر 2024ء میں شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے سقوط کے بعد اسرائیل نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور اس نے شام کی سابقہ فوج کے کئی مقامات پر سیکڑوں فضائی حملے کیے، جبکہ اسرائیلی فوجیوں کو یو این کی نگرانی والے بفرزون میں بھی داخل ہوگئی ہے جو 1974ءسے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی اور شامی افواج کو الگ کرتا ہے۔
پھر فروری کے آخر میں اسرائیل کی طرف سے شام کے خلاف جارحیت کی سطح میں بے پناہ اضافہ ہوا، جب اسرائیلی افواج نے جنوبی شام میں داخل ہوکر متعدد فضائی حملے کیے، جن میں درعا اور ریف، دمشق میں کئی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فورسز نے درعا کے مغربی علاقے کی بکار بستی میں دھاوا بول کر ایک فوجی چھاونی کو تباہ کیا اور قنیطرہ کے جبا گاوں میں بھی حملہ کیا۔
اسرائیلی طیاروں نے شام کی دفاعی وزارت کی طرف سے تل الحارة میں قائم کی گئی فوجی چھاونی پر بھی بمباری کی۔ اس کے بعد مارچ کے آغاز میں اسرائیلی طیاروں نے طرطوس اور اللاذقیہ کے فوجی اڈوں پر مزید حملے کیے، جبکہ صہیونی افواج نے درعا اور قنیطرہ کے دیہی علاقوں میں 12 کلومیٹر تک اندر داخل ہو کر آپریشن کیا۔ اس دوران اسرائیلی فوجی ریڈیو نے بتایا کہ اسرائیل نے شام کی سرزمین پر ایک محفوظ علاقہ قائم کیا ہے اور یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیل کی شام میں موجودگی اب عارضی نہیں رہی بلکہ وہاں 9 فوجی اڈے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ ایف ایم کے مطابق اس علاقے میں اب 3 بریگیڈز کام کررہی ہیں جو 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہیں اور اسرائیلی فوج نے 2025ء تک شام میں رہنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس اسرائیلی دراندازی کے بعد یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ صہیونی ریاست جنوبی شام میں مزید فوجی توسیع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، کیونکہ اسرائیلی حکومت نے واضح طور پر جنوب شام کے تمام علاقوں سے فوجی انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔
شام کے خلاف حالیہ جارحیت اُس وقت شروع ہوئی جب صدر احمدالشرع قاہرہ میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے تیار تھے، جس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز پر ایک مشترکہ عرب موقف اختیار کرنا تھا جس کے مطابق غزہ کے باشندوں کو کسی عرب ملک میں منتقل کیا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی افواج کا جنوبی شام میں داخلہ اور وسیع فضائی حملے چند گھنٹوں بعد شروع ہوئے، جب شام میں قومی مکالمہ کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جو کہ شام کی حکومت کو داخلی طور پر قانونی حیثیت دینے کا ایک اہم قدم تھا، جس میں شام کے مختلف عوامی طبقات کی شرکت اور کئی اہم فیصلوں پر اتفاق کیا گیا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل شام کی موجودہ حکومت کے استحکام کو نہیں چاہتا، کیونکہ اسے شام کے علاقائی تعلقات میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کا خوف ہے، جیسا کہ 25 فروری 2025ء کو رائٹرز ایجنسی نے اپنے ذرائع سے خبر دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل امریکا پر دباو ڈال رہا ہے تاکہ شام میں روسی فوجی اڈوں کی موجودگی برقرار رکھی جائے، تاکہ ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکا جا سکے۔ خاص طور پر غزہ کی جنگ کے بعد ترکی اور تل ابیب کے درمیان کشیدہ تعلقات کے پیش نظر اسرائیل ترکی کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
ترکی اور اسرائیل شام کے معاملے میں ایک دوسرے کے مخالف سمتوں میں کھڑے ہیں، جہاں انقرہ شام کی سرزمین کی یکجہتی پر اصرار کرتا ہے اور یہ بات ترک حکام کے رسمی بیانات میں بار بار دہرائی جاتی ہے، جبکہ اسرائیل شام کی وفاقی نوعیت کے خیالات کی حمایت کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف شام کی حکومت فوجی ادارے کی نئی تشکیل پر کام کر رہی ہے، وہیں اسرائیلی حملے شام کی وزارت دفاع سے منسلک مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسرائیل ایک ممکنہ براہ راست تصادم کے لیے تیار ہو رہا ہے جو ترکی کے ساتھ ہوسکتا ہے، جیسا کہ فوجی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عسکری مبصر بریگیڈیئر جنرل ایلیاس حنا کا کہنا ہے کہ تل ابیب کو خوف ہے کہ ترکی اور شام کے درمیان دفاعی معاہدہ ہو سکتا ہے جو شام کی نئی فوج کو مسلح کرنے اور شام میں ترک فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے۔ اس لیے اسرائیل اس سے پہلے ہی اس صورتحال کو روکنا چاہتا ہے اور ایک نئی حقیقت قائم کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کے اندرونی سطح پر وزیرِ اعظم نیتن یاہو اپنے مخالفین، جیسے کہ یائر گولان، جو کہ ڈیموکریٹس پارٹی کے رہنما ہیں کی جانب سے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ غزہ کے معاہدے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے گریز کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جنگوں کو ختم کرنا نہیں چاہتے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ توجہ کو شام کے محاذ کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے جنوبی شام کے بارے میں بیانات نے وسیع بحث و تمحیص کو جنم دیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے اسے علاقے میں اثر و رسوخ کے نقشے کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک قدم قرار دیا جو شام میں افراتفری اور عدم استحکام کی حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور واشنگٹن کی براہِ راست حمایت سے ممکن ہوا۔ ایک اہم اقدام کے طور پر اسرائیل نے مقبوضہ گولان میں شامی محنت کشوں اور مزدوروں کے لیے اپنے راستے کھول دیے جس پر شام میں عوامی غصہ پھیل گیا اور اس اقدام کے خلاف غم و غصے کے ساتھ احتجاجات شروع ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق اقلیتی برادری دروز سے ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے اسد حکومت کے سقوط کے بعد تل ابیب اور کرد فورسز (قسد) کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالی ہے جو شام کے جزیرہ نما علاقوں کے کئی حصوں پر قابض ہیں۔
اِس کے علاوہ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے متعدد بیانات میں تل ابیب کی شام میں اقلیتی گروپوں کی حمایت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مقصد ان کا شامی مرکزی حکومت میں شامل ہونے سے روکنا ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے چند دن پہلے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل شام میں دروز کمیونٹی کو کسی بھی قسم کے خطرات کا شکار ہونے نہیں دے گا۔ اس بیان کے چند گھنٹوں بعد السویداءکے علاقے میں الغاریہ گاو¿ں کے ایک مقامی گروپ نے طارق الشوفی نامی افسر کی قیادت میں ایک فوجی مجلس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اعلان میں لامرکزیت کو اپنانے کی تصدیق کی گئی اور یہ قدم شام کی مرکزی حکومت کی طاقت کو کمزور کرنے کا ایک تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات رائٹرز ایجنسی کی معلومات سے بھی واضح ہوئی جہاں ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے درخواست کررہا ہے کہ وہ شام کو کمزور اور بغیر مرکزی طاقت کے رکھنے کی کوشش کرے اور وہاں گروہی تصادم کو ہر ممکن طریقے سے ہوا دے۔
اسرائیل کی جانب سے شام کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی واضح ہوگئیں، جب مغربی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے تقریباً 20 یورپی ممالک کو شام پر اقتصادی پابندیاں نہ ہٹانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ اسی وزیر نے مزید بیانات میں شام کی موجودہ حکومت کو ’ادلب کے اسلامی دہشت گردی کے صوبے‘ کا حکومتی تسلسل قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ شام صرف وفاقی نوعیت کی حکومت ہو سکتی ہے۔ برطانوی اخبار مڈل ایسٹ آئی نے اس بات پر خبردار کیا کہ اسرائیل کی ’مہم جوئی‘ کا مقصد گولان کی بلندیوں کے ساتھ ایک الگ ریاست قائم کرنا بھی ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی شمال مشرقی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے میں بھی ایک دوسری ریاست بنانا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ شامی صدر آخرکار ایک ایسی حکومت کا اعلان کریں گے جس کا کنٹرول ملک کے کئی حصوں پر نہیں ہوگا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام میں اس کی سرگرمیاں عارضی ہیں جب تک کہ شام کی نئی حکومت کے ساتھ سیکورٹی کے معاملات طے نہ ہو جائیں اور اس کا فیصلہ نئی حکومت کا طرز عمل کرے گا کہ آیا اسرائیل اپنے حملوں کو جاری رکھے گا یا نہیں۔ اس کا ذکر صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت شام کی نئی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ وہ شام میں ایرانی فوجی سرگرمیوں کو روک دے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے اپنے وزیراعظم کے بیانات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ شام کے تمام علاقے پر مکمل کنٹرول اور خودمختاری کے ساتھ ایک واحد ریاست کا قیام غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس نے کہا کہ منطقی قدم یہ ہوگا کہ شام میں اقلیتی گروپوں کے لیے خود مختاری کی طرف بڑھا جائے۔ مارچ کے آغاز میں اسرائیل نے دروزی گاو¿ں اور قصبوں کو غذائی امداد بھیجنے کی اجازت دینا شروع کر دی، جو عین التین اور مجدل شمس کے بارڈرز کے ذریعے قنیطرہ کے قریب حضر گاوں تک پہنچنے والی تھیں اور اس سے پہلے اسرائیل نے دروز شامیوں کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی تھی۔
اسرائیل کے نقطہ نظر کے ساتھ ہم آہنگی میں قسد کے کمانڈر مظلوم عبدی نے پچھلے مہینے کے آخر میں بی بی سی پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی خواہش ایک لا مرکزی ریاست قائم کرنے کی ہے، جو کردوں کے حقوق کی ضمانت دے اور اس نے دمشق کی حکومت کے ساتھ اختلافات کی تصدیق کی۔ عبدی نے اسرائیل کی جانب سے شام کی نئی حکومت کو ’سلفی جہادی قوت‘ قرار دینے والے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل سمیت کسی بھی ملک کے تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ان کی مدد کرے، کیونکہ اسرائیل کا امریکا اور مغرب پر اثر و رسوخ ہے۔
عراقی محقق لقاء مکی کے مطابق اسرائیل کی حکمت عملی عراق اور شام پر مرکوز ہے، کیونکہ یہ دونوں ہمیشہ فلسطینی مسئلے کا گہرا حصہ رہے ہیں اور وہ انہیں ممکنہ خطرہ سمجھتا ہے۔ مکی کا کہنا ہے کہ تل ابیب کا دروز اور کردوں کی علیحدگی کی حمایت کرنا صرف ایک نفسیاتی جنگ نہیں ہے تاکہ نئی حکومت کو مصروف رکھا جا سکے بلکہ یہ دراصل تقسیم کا ایک حقیقی منصوبہ ہے۔ مکی نے اپنے تجزیے میں یہ بھی کہا کہ اسرائیل موجودہ شام کی صورتحال کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔ اسرائیل شام کو ایک طاقتور ملک سمجھتا ہے، اگرچہ یہ اس وقت تھکا ہوا دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ جلد طاقتور ہو سکتا ہے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اور شام اور اسرائیل کے درمیان ایک جغرافیائی اور آبادیاتی رکاوٹ قائم کرنے کے لیے درزی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جو اردن کی سرحد سے لبنان تک پھیلی ہو۔ تاہم مکی نے کہا کہ اس منظرنامے کا کامیاب ہونا آسان نہیں، کیونکہ شام کے دروز کا ایک وسیع حصہ اس کے خلاف ہے۔ دروز قیادت اس کا بار بار اعلان بھی کرچکی ہے۔
اب تک شامی انتظامیہ نے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح اقدامات نہیں اٹھائے ہیں اور اسرائیلی رویے کی مذمت صرف شامی قومی مکالمے کے نتائج میں کی گئی ہے۔ دمشق کے سفارتی ذرائع کے مطابق شامی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے رابطے میں ہے تاکہ اسے اسرائیل پر دباو ڈالنے پر قائل کیا جا سکے تاکہ وہ جنوبی شام پر اپنی جارحیت کو روک دے۔ تاہم امریکی انتظامیہ کی جانب سے کوئی واضح ردعمل یا تل ابیب پر دباو ڈالنے کے کوئی آثار ابھی تک واضح نہیں ہوئے۔ ذرائع کے مطابق شامی انتظامیہ اس کے علاوہ علاقائی اور عرب ممالک سے بھی رابطے کر رہی ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حکمت عملی تیار کی جا سکے۔
یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کی جارحیت میں اضافہ اس وقت ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں قدم رکھا، جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکی انتظامیہ سے اسرائیل کے رویے کو قابو کرنے کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ’جرزالم پوسٹ‘ اخبار نے اپنے تجزیے میں پیش گوئی کی ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کے شام کے علاقے کی بفر زون میں موجودگی کی حمایت کریں گے اور اسے آئندہ کئی برسوں تک برقرار رکھنے کی اجازت دیں گے، جس سے اسرائیل پر کسی بھی قسم کے دباو، بشمول یورپی دباو کی اہمیت کم ہو جائے گی۔