کابینہ میں توسیع۔ قول و فعل کا تضاد

گزشتہ چند ایام سے عجیب و غریب خبریں دیکھنے، سننے کو مل رہی ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان کے مرکزی دھارے کے تمام اخبارات میں 50سے زائد صفحات پر مشتمل مریم سرکار کی جانب سے دیے گئے اشتہارات نے پوری پاکستانی قوم کی توجہ حاصل کی۔ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے طرفین کی جانب سے اشتہارات دیکھے گئے۔ کہیں پر تعریفوں کے پُل باندھے گئے تو کہیں آگ کے گولے برسائے گئے۔

یاد رہے 2021ء میں بزدار سرکار کی جانب سے ایسے ہی اشتہا رات نما اخبارات جو تقریباً 40صفحات پر مشتمل تھے شائع ہوئے تو راقم نے بزدار سرکار پر تنقید کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حامیوں کے سامنے یہ سوال اُٹھایا کہ ان اشتہارات پر کس کس پاکستانی کا پیسہ خرچ ہوا ہے؟ اس وقت تحریک انصاف کے حامی توجیہات پیش کرتے تھے جبکہ ان کے حریف مسلم لیگ ن کے حامی عمران و بزدار سرکار پر دل کھول کر بھڑاس نکالتے تھے اور آج صورتحال 180زاویہ پر دکھائی دے رہی ہے، جہاں پی ٹی آئی حامی دل کھول کر مریم سرکار پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں تو مسلم لیگ ن کے حامی عین اپنے حریفوں کی طرح مریم سرکار کے اشتہارات کا دفاع کررہے ہیں۔ فیر کہندے نے بوٹا گالاں کڈا دا اے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کروڑوں اربوں روپے کے اشتہارات کی بجائے یہی رقم کسی فلاحی منصوبے پر نہیں لگانی چاہیے؟ یاد رہے اگر آپ کام کررہے ہیں تو آپ کا کام خودبخود دکھائی دے گا جیسا کہ صفائی ستھرائی پروگرام پرصوبہ پنجاب کے تقریباً 70فیصد شہری حکومتِ وقت کو داد دے رہے ہیں۔ وگرنہ اربوں روپے کے اشتہارات لگانے سے نہ تو آپ صحیح معنوں میں اپنی کارکردگی دکھا سکتے ہیں اور نہ ہی حریف جماعت کے حامیوں کے دل جیت سکتے ہیں۔

پچھلے ہفتے وفاقی کابینہ میں اضافہ دیکھنے کو ملا جس میں چُن چُن کرنگینے بھرتی کیے گئے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی سیاسی و غیر سیاسی قیادت قریہ قریہ نگر نگر جاکر پاکستانی خزانے کے پیٹ کو بھرنے کیلئے شبانہ روز کاوشوں میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے، عین دوسری طرف اسی خزانے کے مصرف کیلئے وزراء کی لمبی قطاروں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ آج بھی صورتحال بالکل ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جب عمران سرکار بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے نہ بند ہونے والے منہ کو بند کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی تھی اور آئے دن وزراء کو بھرتی کرتی چلی جاتی تھی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حمایتی افراد اپنے اپنے راگ الاپتے دکھائی دیتے تھے مگر ہمارے جیسے دل جلے اُس وقت بھی اپنی بھڑاس نکالتے تھے اور آج بھی اکرم اُداس کے ڈائیلاگ ” فیر کہندے نے بوٹا گالا ںکڈا دا اے” کو گنگنا رہے ہیں۔ ویسے عمران سرکار و شہباز سرکار سے یہ سوال پوچھنا تو ضرور بنتا ہے کہ جن نگینوں کو آپ اپنی کابینہ میں بھرتی کرتے ہیں وہی حضرات چند سالوں میں آپ کے مخالفین کی کابینہ کا حصہ کیوں بن جاتے ہیں؟ جیسا کہ سابق وزیراعلی خیبر پختونخوا و سابق وزیر دفاع جناب پرویز خٹک کبھی عمران خان کے کنٹینر پر خٹک ڈانس کیا کرتے تھے اور آج موصوف اُس سیاسی لیڈر یعنی شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بن گئے جن کو کبھی چور ڈاکو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

دہائیوں کے بعد پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی جسے منی ورلڈ کپ بھی کہا جاتا ہے کی صورت میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہوئی، اس کے انعقاد پر سب خوش تھے، جبکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شاندار بے عزتی پروگرام پر پاکستان کا ہر شہری اکرم اُداس بنا ہوا ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ بندہ ناچیز نے عرصہ دراز ہی سے پاکستانی کرکٹ کھلنڈروں کو دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم نے پاکستانی کرکٹ کو ٹھیک کرنا ہے اور اگر مگر اور تُکوں کے بغیر صف اول کی ٹیم بننا ہے تو کرکٹ کو پاکستان کے قومی کھیل یعنی ہاکی کے کھلاڑیوں کی طرز پر اوقات میں رکھنا ہوگا، حالانکہ ہاکی کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی کسی ظلم سے کم نہیں۔ بہرحال میری رائے میں جہاں پاکستانی کرکٹرز کا قصور ہے وہیں پر پاکستانی حکام خصوصا کرکٹ بورڑ، میڈیا چینلز اور اشتہارات دینے والی کمپنیاں بھی قصوروار ہیں جو سال کے 365دنوں میں 50دن سے بھی کم دن کام کرنے والوں کو کروڑوں اربوں روپے سے نہ صرف نوازتے ہیں بلکہ ان نواب زادوں کو سر پر بھی چڑھائے رکھتے ہیں۔ ان شہزادوں کو کروڑوں اربوں روپے نوازنے کی بجائے چند ہزار تنخواہ پر رکھیں، پھر دیکھیں یہ کس طرح کام یعنی کھیل پیش کرتے ہیں۔ بصورت دیگر حکام ان کو نوازتے رہیں گے اور پاکستانی عوام ان کو اکرام اُداس کی طرح داد تحسین پیش کرتے رہیں گے۔