اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ایک بار پھر ہم پر اپنی یادوں، ماحول اور پر کیف نسیم کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ رمضان جو خود اپنی حقیقت میں ہمیشہ یکساں رہتا ہے، درحقیقت ہمیں بدلنے کے لیے آتا ہے۔ یہ قمری سال کا نواں مہینہ ہے، جو ہم مسلمانوں کیلئے نہایت مقدس اور بابرکت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا وہ مہینہ ہے، جس میں روزہ فرض کیا گیا ہے جو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی انسان کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس کے ذریعے انسان میں صبر، برداشت اور دوسروں کی تکالیف کا احساس پیدا کرتا ہے۔
رمضان کے حوالے سے ہمیں اس نکتے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان بحیثیت مجموعی رمضان المبارک میں عبادات کا خاص اہتمام بھی کرتے ہیں، تراویح بھی پڑھتے ہیں، جس میں پورے قرآن یا زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، نوافل بھی پڑھتے ہیں، صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت بھی طلب کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ پورا مہینہ ہماری عمومی زندگی پر وہ روحانی اثر نہیں چھوڑتاجس کے بعد جسم پر روح کی حکمرانی رہے، باوجود اس کے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے نفس کی اصلاح کے حوالے سے تمام بڑی رکاوٹیں ختم کردی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم رمضان کے روزے کو فقط فریضے کے طور پر لیتے اور رکھتے ہیں لیکن تزکیہ نفس اور تربیت کے طور پر نہیں لیتے۔ سو ہم روزہ رکھنے کے بعد فرضیت سے تو بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن اصلاح ہماری نہیں ہوتی، جو بہت اہم اور جس کی طرف قرآن کریم نے ”لعلکم تتقون” کہہ کر اشارہ فرمایا ہے۔
ہم چند حلال چیزوں سے مخصوص وقت کیلئے تو پرہیز کر لیتے ہیں لیکن جو امور ہمیشہ کیلئے منع کردی گئی ہیں ان کا ارتکاب کرکے اصلاح نفس کی اس مؤثر دوا کو ناکارہ بنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے نفس کا علاج درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔ اسی بات کو حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ”کتنے ہی روزہ دار ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتا۔ ” روزے کی اصل روح تقوی کا حصول ہے اور تقوی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے۔ یعنی اس کی سماعت، بصارت، زبان اور تمام اعضا گناہوں سے محفوظ رہیں۔ یہی روحانی اور حقیقی روزہ ہے جو انسان کو اللہ تعالی کے قریب کر دیتا ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”جب تم روزہ رکھو تو تمہاری سماعت، بصارت اور زبان بھی حرام کاموں سے روزہ رکھے۔ پڑوسی کو تکلیف دینے سے باز رہو، روزہ کے دن تم پر سکون اور وقار طاری رہے، ایسا نہ ہو کہ تمہارے روزے کا دن اور افطار کا دن برابر ہو۔ ”
غور کیا جائے تو شریعت کے جملہ احکام ہمیشہ مصالح کے حصول اور مفاسد کے دور کرنے پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر حکم کے پیچھے کوئی نہ کوئی دینی اور دنیاوی مصلحت ضرور چھپی ہوتی ہے، مثال کے طور پر زکوٰة فریضہ، عبادت اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک سماجی ترقی اور اقتصادی ثقافت کا بھی جز ہے۔ بالکل اسی طرح ماہ رمضان کے روزے دین اسلام کے ایک رکن اور فریضہ کے ساتھ ساتھ نفس کی اصلاح کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ یہ دراصل ظاہری اور باطنی حقیقت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور اعضا کی گواہی کو دل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی منفرد شکل ہے۔ اسی بنیاد پر روزے کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں جو اس بات پر منحصر ہیں کہ عمل اور احساس کے درمیان یہ مطابقت کس حد تک حاصل ہوتی ہے، چنانچہ روزہ کے ان درجات کو امام غزالی اپنی مشہور کتاب ”احیاء علوم الدین” کی پہلی جلد میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”جان لو کہ روزے کی تین قسمیں ہیں: 1 عام لوگوں کا روزہ، جس میں انسان کھانے، پینے اور شہوت کو ترک کرتا ہے۔ 2 خاص لوگوں کا روزہ، جس میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور تمام اعضا کو گناہوں سے روکا جاتا ہے۔ 3 خاص الخاص لوگوں (انبیائے کرام اور مقربین)کا روزہ، جو دل کو رذائل، دنیاوی خیالات اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے مکمل طور پر خالی کر دینے کا نام ہے۔ ”
امام غزالی کے اس قول کا یہ مطلب ہرگز نہیںکہ عام لوگوں کے لیے ایک طرح کا روزہ ہے اور خاص لوگوں کے لیے کسی اور طرح کا روزہ ہے، بلکہ سب کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ روزے کے اعلیٰ اور کامل ترین درجے کو حاصل کریں، البتہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی رہی ہے کہ اس کے بندے اس معاملے میں مختلف درجات پر ہوتے ہیں، چنانچہ جس طرح نماز کی ادائی اور اس میں خشوع کے حوالے سے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی طرح لوگوں کے روزے بھی مختلف درجوں کے ہوتے ہیں، مطلوب مگر ہر ایک سے یہی ہے کہ وہ روزے کو اس کے تمام معانی اور وسیع تر مفہوم کے ساتھ مکمل طور پر ادا کرے۔ قرآن کریم میں بھی روزے کی فرضیت والی آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ لعلکم تتقون، یعنی روزے کا مطلوبہ اثر صرف جسمانی خواہشات سے رکنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اوپر بیان کردہ دوسرے اور تیسرے درجے تک بھی پہنچنا چاہیے تاکہ مطلوبہ تقویٰ حاصل کیا جا سکے کیونکہ تقویٰ ہی دلوں کو گناہوں کے ذریعے روزے کے فساد سے بچاتا ہے اور یہ تقویٰ دلوں میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب محض اللہ کی رضا کیلئے یہ فریضہ ادا کیا جائے۔
عالم عرب کے مشہور ادیب مصطفی صادق الرافعی اسی حقیقت کو گہرائی سے جانچنے کے بعد لکھتے ہیں:”میں نے اتقاء کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ روزے کے ذریعے انسان اپنے آپ کو اس حیوان کی مانند بننے سے بچاتا ہے جس کا واحد قانون اس کا پیٹ ہو اور جو دنیا کے معاملات کو صرف اسی قانون کے مطابق طے کرے۔ اسی طرح روزہ معاشرتی سطح پر بھی انسانیت اور فطرت کی حفاظت کرتا ہے، تاکہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ویسا سلوک نہ کرے جیسا کوئی گدھا کسی انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اپنی ساری قوت کو صرف چند لقموں کے عوض بیچ دینا۔ ”
غور کیا جائے تو دلوں میں رحمت درد، مشقت اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے، جو روزے کے عظیم سماجی رازوں میں سے ایک ہے، یہی وہ عملی طریقہ ہے جو دل میں رحم کو پروان چڑھاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھوک سے بے نیاز ایک دولت مند روزہ دار بھی بھوک سے تڑپتے غریب کیلئے رحم محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں انسانی ہمدردی کی قوت غالب آتے ہوئے روحانی اخلاقیات کو مادی دنیا پر حکمرانی مل جاتی ہے۔
عالم عرب کے ایک اور مشہور ادیب اور طبیب مصطفی محمود رمضان کے حوالے سے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں: ”روزہ ان قدیم عبادات میں سے ہے جو تمام مذاہب میں مشترک رہی ہیں لیکن ہمیشہ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں منہ، دانت، حلق اور معدہ دیا ہے تاکہ ہم کھائیں، لیکن پھر وہی ہمیں حکم دیتا ہے کہ روزہ رکھو۔ اللہ نے ہمیں حسن و جمال، طاقت اور شہوت عطا کی، پھر وہی ہمیں کہتا ہے کہ نظریں جھکا لو اور پاک دامنی اختیار کرو۔ کیا یہ معقول ہے؟ میں کہتا ہوں کہ یہی سب سے زیادہ معقول بات ہے۔ اللہ نے تمہیں گھوڑا اس لیے دیا ہے کہ تم اس پر سواری کرو، نہ کہ وہ تم پر سوار ہو جائے تاکہ تم اسے قابو میں رکھو اور اس کی قیادت کرو، نہ کہ وہ تمہیں قابو میں لے کر اپنی مرضی کے مطابق چلائے۔ تمہارا جسم بھی ایک گھوڑے کی مانند ہے، جو تمہارے لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم اسے قابو میں رکھو، اس پر حکمرانی کرو، اسے لگام دو اور اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرو، نہ کہ وہ تمہیں اپنے تقاضوں کے پیچھے لگا کر تم پر حکمرانی کرے۔ اسی لیے شہوت پر قابو پانا، خواہشات کو قابو میں رکھنا اور پیٹ کی لگام کھینچنا ہی انسان ہونے کی علامت ہے۔ تم حقیقت میں تبھی انسان ہو جب تم اپنی پسندیدہ چیزوں کی مخالفت کر سکو اور وہ چیزیں برداشت کر سکو جو تمہیں ناگوار گزرتی ہیں لیکن اگر تمہاری پوری زندگی بس اپنی بھوک اور شہوت کے پیچھے بھاگنے میں گزر جائے، تو پھر تم ایک ایسے جانور کی مانند ہو جسے ڈنڈے سے روکا اور چارہ دکھا کر حرکت دی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ نے ہمیں اس مقصد کے لیے پیدا نہیں کیا!”
حق تو یہ ہے کہ ہم واقعی ایک حقیقی اور روحانی روزے کے محتاج ہیں، جس میں انضباط، ادب اور اطاعت کا درس ہو اور جس کا اثر فرد سے ہوتے ہوئے پورے معاشرے تک پھیل جائے۔ کاش ہم تربیت کے اس مہینہ میں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے، اپنے خالق کی طرف رجوع کرنے، تقویٰ، دوسروں کا احساس، قربانی، صبر، محبت، اور بھائی چارے کا درس حاصل کرکے اللہ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں!