گزشتہ سے پیوستہ:
پروگرام کے بعد علمائے کرام کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی اور مولانا ڈاکٹر علی طارق صاحب کی دلچسپ باتوں سے کافی دیر تک محظوظ ہوئے۔ انہوں نے حضرت تھانوی کے سلسلے سے جڑے بزرگوں کے واقعات سنائے اور اخلاص و للہیت پر پر اثر گفتگو کی۔ ہماری خواہش تھی کہ ان کی مجلس سے مزید حظ اٹھا سکیں اور ان کی طرف سے بھی اگلے روز صبح سویرے ناشتے کی دعوت بھی تھی مگر ہمیں اگلے روز اتوار کی صبح کوہاٹ روانہ ہونا تھا اور ہمارا قیام بھی مولانا عبداللہ مدنی کے گھر تھا، اس لیے ان تک پہنچنا ممکن نہیں تھا اور یوں یہ نشست اگلی بار تک کے لیے ادھار ہو رہی۔
تقریب میں بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی مگر برادرم عبدالروف چشتی سے 23سال بعد ملاقات سب سے یاد گار تھی۔ جامعہ خالد بن ولید میں کراٹے کی کلاس میں ہم ایک ساتھ شریک رہے۔ فون پر رابطہ رہا مگر ملاقات اس محفل میں مقدر تھی۔ ان کا اصرار تھا چائے ان کے گھر پر پی جائے، جسے چائے نوشی کی عادت نہ ہونے کے باوجود ٹھکرانا مناسب نہیں لگا۔ یوں ان کے ساتھ تعارف و احوال واقعی کا بھی موقع میسر آیا۔ ان تمام مصروفیات سے فارغ ہوکر جب ہم برادرم مولانا عبداللہ مدنی کے گھر پہنچے تو رات کے دو بج رہے تھے۔ صبح فجر کے بعد کوہاٹ جانا تھا اور کراچی کے مقابلے میں یہاں کا موسم کافی سرد بھی تھا۔
آج کے دن کوہاٹ میں مرکزی پروگرام تھا، جس کی تشہیر عرصے سے جاری تھی اور اس کی اہمیت دو چند تھی کہ ایک اعتبار سے کوہاٹ میں جامعہ الرشید کے زیر اہتمام پہلا پروگرام بھی تھا۔ فضلائے جامعہ الرشید یہاں سرگرم تھے، مقامی علمائے کرام کی تنظیم بھی بھرپور کردار ادا کررہی تھی، پروگرام کی مرکزی ذمہ داری بھائی آصف قاسمی صاحب کے پاس تھی، جبکہ جامعہ الرشید سے ڈاکٹر ذیشان احمد صاحب بھی تقریب کے لیے تشریف لارہے تھے۔
فلک بوس پہاڑوں میں گھرے کوہاٹ شہر میں داخل ہوتے ہی ایک مانوس اپنائیت کا سا احساس ہوا، شہر میں ہرسو آج کے پروگرام کے بل بورڈز، پوسٹرز اور پینافلیکسز آویزاں تھے، جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ فاضلان رشید اور علمائے کوہاٹ نے پروگرام کی کامیابی کیلئے انتھک کوشش کی ہے۔ بھائی آصف قاسمی اور مقامی علمائے کرام سے ملاقات ہوئی اور پھر نماز پڑھتے ہی کوہاٹ کمپنی باغ میں واقع باچا خان لائبریری جاپہنچے۔ فاضلان رشید نے بھرپور استقبال کیا اور ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا کہ ہم کراچی میں ہی ہیں، فضلائے کرام نے رجسٹریشن ڈیسک فعال کررکھا تھا، مہمانان گرامی کو کارڈ پہنائے جارہے تھے اور رہبر ساتھی مہمانوں کو نشستوں تک پہنچا رہے تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری بھی ایک فاضل نے ہی سنبھال رکھی تھی اور بڑی خوبصورتی سے کارروائی آگے بڑھارہے تھے۔ اس ورک شاپ کا عنوان دینی خدمت اور معاشی مسائل تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق گفتگو بھی بندہ کے ذمہ تھی۔ بندہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہم سوشل میڈیا کو استعمال کریں، ایسا نہ ہو کہ سوشل میڈیا ہمیں استعمال کررہا ہو۔ اس وقت جن پیجز، شخصیات اور چینلز کو ہم ویوز دے رہے ہیں، ان کے ذریعے وہ تو بے تحاشا کمائی کررہے ہیں، ہمارے ہاتھ کیا آرہا ہے؟ سوشل میڈیا پر گزارا جانے والا وقت یا تو بیوی بچوں کے حصے کا ہوتا ہے یا پھر دفتر اور ڈیوٹی ٹائم کا۔ اس وقت سوشل میڈیا ایڈکشن ایک بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے اور دنیا بھر میں اس کا علاج شروع ہوچکا ہے۔ اپ ڈیٹ سینڈروم، فیئر آف مسنگ آوٹ اب ہر سطح پر پھیل چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو چند احادیث ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ ارشاد ہے: جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو کہ اپنے نیک کام کو چھپا سکے، تو اسے چاہیے کہ ایسا کر لے۔ (حدیث شریف)
ایک اور جگہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے روز نشست کے اعتبار سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہوں اور تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ نفرت والے اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو فضول بولنے والے، منہ بگاڑ کر گفتگو کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں۔
آج کل یہ سب چیزیں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو سوشل میڈیا کے شر سے بچائے، آمین۔
پروگرام میں حاضری بھرپور تھی، سیمینار ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ آج پاکستان اور انڈیا کا کرکٹ میچ بھی تھا مگر تاجر برادری، صحافی بھائی، علمائے کرام اور عام لوگوں کی بڑی تعداد ہال میں جمع تھی اورکوئی نشست بھی خالی نہیں رہی تھی۔ رضاکار ساتھی بھی پوری مستعدی سے مہمانوں کو وصول کرنے اور انہیں متعلقہ نشستوں تک پہنچانے میں مصروف تھے۔ آخری گفتگو مولانا ڈاکٹر ذیشان احمد کی تھی، جنہوں نے وژن، مشن، اہداف و مقاصد کے تعین اور زندگی میں کامیابی کے اصولوں پر سیرحاصل گفتگو کی۔ یہ نشست عصر کی نماز پر مکمل ہوئی، عصر کی نماز کوہاٹ میں ادا کرکے ہم فٹافٹ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگئے، کیونکہ سفر طویل تھا اور وقت بہت مختصر۔ بھائی مولانا محمد وسیم صاحب اپنی گاڑی پر ہمارے ساتھ تھے اور واپسی پر اندھیرا پھیل جانے کے بعد ڈرائیونگ بھی مشکل تر ہو جاتی ہے۔ ہوا بھی وہی کہ جب ہم اسلام آباد پہنچے تو رات کے دس بج چکے تھے۔ مولانا قاری وسیم صاحب نے ہمیں منزل تک پہنچایا تو رات کے بارہ بجے کا وقت ہونے والا تھا۔
اسلام آباد میں کلیہ الشریعہ کے فاضل مولانا عبدالمنان عباسی ہمارے میزبان تھے اور اگلا سارا دن ان کی ہمراہی میں گزرا۔ مری میں کلیہ الشریعہ کے ہی فاضل بھائی اسد محمود لارنس کالج میں لیکچرر ہیں، جامعہ الرشید سے ان کی وابستگی کسی تعریف و تعارف کی محتاج نہیں۔ اسلام آباد و مری میں فضلائے جامعہ کے متحرک ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے پاس جاکر اندازہ ہوا کہ 1860ء میں بننے والا لارنس کالج اپنے دامن میں بہت سے تاریخی مقامات کو سموئے ہوئے ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں کی فیکلٹی بھائی اسد محمود کی وجہ سے جامعہ الرشید کے کاموں سے بخوبی واقف تھی اور بعض اوقات حیرت ہوتی کہ شاید ان کو اتنی ہی معلومات ہیں، جتنی کراچی کیمپس میں موجود لوگوں کو ہیں۔