وفاقی کابینہ میں توسیع اور پیپلزپارٹی کے تحفظات

وفاق میں دو درجن سے زائد وزراء اور مشیران وفاقی کابینہ میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ اس وقت وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 47ہو گئی ہے جو ایک دو روز میں 50ہو جائے گی کہ تین منتخب وزراء اسلام آباد میں ٹریفک جام ہونے کے سبب بروقت ایوانِ صدر حلف برداری کے لیے نہ پہنچ سکے۔ اس طرح وفاقی وزراء کی تعداد ایک سال بعد دو گنا ہو گئی ہے۔ دیکھتے ہیں حکومتی کارکردگی میں یہ وزراء کس قدر اضافہ کرتے ہیں۔

ایک برس پہلے وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف کی قیادت میں منتخب حکومت نے جس ایجنڈے کے تحت باگ ڈور سنبھالی تھی اس میں سرِفہرست وفاقی کابینہ سے لے کر نچلی سطح تک رائٹ سائزنگ کرتے ہوئے بے جا اسراف اور قومی دولت کے ضیاع کو روکنا شامل ہے۔ ایک سال تک حکومت نے پورے خلوص اور نیک نیتی سے اس ایجنڈے پر عمل کیا ہے۔ اب تک وفاق اور صوبہ پنجاب میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری اسامیاں ختم کی جا چکی ہیں۔ جو اسامیاں تین سال سے زائد عرصہ سے خالی تھیں انہیں بھی ختم کر دیا گیا۔ پنجاب میں ہزاروں سرکاری اسکول آئوٹ سورس کر دیے گئے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب اسپتالوں کی باری بھی آ گئی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے ہزاروں ملازمین فارغ ہو چکے ہیں۔ حکومت پورے خلوص سے کوشش کر رہی ہے کہ ناروا بوجھ سے جان چھڑوا لی جائے۔ اس کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں رائٹ سائزنگ یا ڈائون سائزنگ کی جا رہی ہے تو وفاقی کابینہ کی ڈبل سائزنگ کا کیا جواز ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ابھی تک وفاقی کابینہ کی تعداد رائٹ سائزنگ کی حد کے اندر ہی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی کل تعداد کے11فیصد ارکان کو وفاقی کابینہ میں آئینی طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ کابینہ کے ارکان کی تعداد اس معیار پر پورا اترتی ہے، البتہ کل کلاں اگر پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں شمولیت پر آمادہ ہو گئی تو ایسی صورت میں حکومتی پارٹی کو اپنے چند وزراء اور مشیران سے استعفے لینے پڑ سکتے ہیں۔

جمعرات کو وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 22سے بڑھ کر پچاس ہو گئی ہے۔ وزیرِ اعظم کی پوری کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ میں شمولیت پر آمادہ نہیں کیا جا سکا۔ پیپلز پارٹی کے بہت سے تحفظات ہیں۔ گزشتہ روز صدر زرداری نے پیپلزپارٹی کے پارلیمانی وفد سے بات کرتے ہوئے بھی شکوہ بھرے انداز میں کہا تھا کہ تحریری معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باوجود حکومت کے ساتھ چلنا مجبوری ہے۔ پارلیمانی وفد نے ان کے سامنے شکایات پیش کی تھیں کہ انہیں بری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وفاق میں اتحادی جماعتیں ہیں۔ دونوں ہی حجم کے لحاظ سے بڑی پارٹیاں اور ماضی میں ایک دوسری کی حریف رہی ہیں۔ دونوں ہی حالات کے جبر اور مشترکہ سیاسی حریف عمران خان کی مخالفت میں ایک دوسری کی حلیف بنی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے عملی طور پر حکومت کا حصہ بننے سے معذرت کی ہوئی ہے۔ گو اس نے اپنے تعاون کی اچھی خاصی قیمت ملک کی صدارت، دو صوبوں کی گورنر شپ بہت سے قومی اداروں کی سربراہی کی صورت میں وصول کر رکھی ہے اور یہ ایسے محفوظ عہدے ہیں کہ خدانخواستہ اگر حکومت چلی بھی جاتی ہے تو پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ تمام عہدے محفوظ ہوں گے۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کو حکومت سے بہت سی جائز شکایات ہیں۔ جائز اس لیے کہ حکومت نے تحریری معاہدے کی بعض شقوں پر ابھی تک عمل نہیں کیا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کی پورے خلوص سے کوشش کرتی رہی ہے۔ اب بھی گزشتہ چار ماہ سے کوشش کی جا رہی تھی۔ اسحاق ڈار کو وزیرِ خارجہ ہونے کے باوجود کچھ عرصہ بعد ڈپٹی وزیرِ اعظم اسی لیے بنایا گیا تھا کہ بلاول بھٹو کے مان جانے کی صورت میں وہ وزارتِ خارجہ کے قلمدان کو چھوڑ دیں گے۔ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں بطور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ذاتی تعلقات بھی بہت وسیع کر لیے تھے۔ وہ اب بھی ایسا کر سکتے ہیں مگر ان کا مسلسل انکار اپنے اندر ایک بہت بڑی وجہ رکھتا ہے۔ وہ اتنے بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ان کے ارکان اسمبلی اگر وزیر بن جاتے ہیں تو پارٹی مضبوط ہو گی۔ پارٹی ورکرز مطمئن ہوں گے اور ان کے ارکان اسمبلی کو برابری کی سطح پر فنڈز اور منصوبہ جات بھی ملیں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بلاول ان تمام مفادات کے حصول سے گریزاں ہیں؟ یہ سوال بڑا اہم ہے۔

دراصل بلاول بھٹو کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ان کی پارٹی صوبہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ خصوصاً پنجاب میں پارٹی کا وجود اور عدم وجود ایک برابر ہے۔ بلاول ایک مرتبہ پھر پارٹی کو ملکی سطح کی ایک مضبوط سیاسی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہیں پنجاب میں اسپیس کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وفاق میں بے شک انہیں ایک وزارت بھی نہ دی جائے لیکن پنجاب میں حکومت سازی میں ان کی پارٹی کو معقول بلکہ جثے سے زیادہ حصہ ملے۔ وہ اپنے ایم پی ایز کیلئے صوبائی وزارتوں کے علاوہ اپنے ہارے ہوئے صوبائی امیدواروں کیلئے مشیروں کے عہدے چاہتے ہیں۔ وہ ترقیاتی منصوبوں اور ضلعی کمیٹیوں میں ان کی شمولیت چاہتے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کے ورکرز کو مطمئن اور پارٹی کو موثر انداز میں پنجاب میں فعال کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں دونوں پارٹیوں کے متعدد اعلیٰ سطحی اجلاس ہو چکے ہیں۔ فارمولے بنتے ہیں۔ وعدے ہوتے ہیں لیکن یہ بیل ابھی تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن بلاول کے مطالبات کے جواب میں وہی کچھ اپنے لیے سندھ میں بھی چاہتی ہے۔ وہ بھی سندھ میں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو مطمئن کرنے کیلئے صوبائی حکومت کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ ضلعی سطح پر اپنا فعال کردار مانگتی ہے۔ بلاول اس بات پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ پنجاب میں جو مراعات چاہتے ہیں وہی مراعات سندھ میں مسلم لیگ ن کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف مریم نوازبھی پیپلز پارٹی کے پنجاب میں فعال ہونے کے حق میں نہیں۔ دونوں پارٹیوں کے اتحاد میں بڑی پیچیدگیاں ہیں۔ بلاول اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اس بجٹ کے موقع پر بلاول بھرپور ناراضی کا اظہار کریں گے۔ بجٹ پاس نہ ہونے دینے کی دھمکی بھی دیں گے لیکن یہ محض دھمکیاں ہی رہیں گی۔ مقتدر حلقے ٹریک پر چڑھتی معیشت کو بیک گیئر لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ امکان یہی ہے کہ بلاول اس مرتبہ بجٹ کے موقع پر پنجاب میں کچھ نہ کچھ حاصل کر لیں گے۔