عوامی جمہوریہ کانگو میں ماہ رمضان، 10 ملین مسلمانوں کو تراویح سے روک دیا گیا (علی ہلال)

افریقی ملک عوامی جمہوریہ کانگو (ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو) میں مسلح تنازعے کے باعث ماہ رمضان میں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ کانگو ڈیموکریٹک ری پبلک (واضح رہے کہ عوامی جمہوریہ کانگو جو ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو بھی کہلاتا ہے اور جمہوریہ کانگو دو الگ الگ مگر پڑوسی افریقی ملک ہیں) کے مشرقی علاقوں میں اِسلامک سپریم کونسل نے مسلمانوں کو تراویح نہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنی جانوں کو خطرے سے بچانے کا کہاہے۔

جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقوں میں ایم 23 نامی باغی تنظیم سرگرم ہے جسے ہمسایہ ملک روانڈا کی حمایت حاصل ہے۔ کانگوکے مشرقی علاقے بوکافو کے شیخ یاسین کابونجو نے بتایا کہ علماءکونسل نے مشترکہ فتوی دیاہے کہ امن وامان کی بدتر صورت حال کے باعث مسلمانوں کے لیے رات کو گھروں سے نکلنا محفوظ نہیں ہے، لہٰذا مسلمان ان خراب حالات میں باہر نکلنے کا خطرہ مول لینے سے گریز کریں۔ علماءکونسل نے مساجد کے قریب رہنے والے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مغرب اور عشاءکی نمازیں ایک ساتھ ادا کرکے گھروں کا رخ کیا کریں۔ کانگو کے مشرقی علاقوں میں ماہ رمضان سے قبل خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے جس میں ایک فریق ایم 23 نامی باغی تنظیم ہے اور دوسری جانب ملک کی سرکاری فورسز ہیں۔
کانگو کی 77 ملین آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 10 ملیں ہے جو اقلیت میں ہیں۔ اسلامی علماءکے عالمی اتحاد کے اعداد و شمار کے مطابق کانگو ڈیموکریٹک ری پبلک میں مسلمانوں کی تعداد 17 ملین تھی جو گزشتہ عرصے میں کم ہوکر 10 ملین ہوکر رہ گئی ہے۔ کمی لہ وجوہات میں غربت، جہالت، پسماندگی اور مسلمانوں کے خلاف مقامی فورسز اور باغی ملیشیا گروپوں کے مظالم اور تشدد سرفہرست ہیں۔کانگو ڈیموکریٹک ریپبلک میں عیسائی مشنری بھی سرگرم ہے جو مسلمانوں کی جہالت اور پسماندگی و کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں مرتد بنارہی ہے۔ کانگو ڈیموکریٹک ریپبلک کے بیشتر مسلمان دارالحکومت کنشاسا اور کچھ مشرقی شہر جیسے گوما، بوکاو، ماس، اور ماکاٹوکسائی میں آباد ہیں۔ ماہ رمضان کانگو ڈیموکریٹک کے مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہوا کرتا تھا۔ مسلمان اس ماہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ملتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور دینی اجتماعات ومحافل منعقد کرتے تھے، لیکن اس سال خانہ جنگی کے باعث یہ سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔
رمضان میں مسلح ملیشیا گروپوں نے مسلمانوں کو ہر قسم کی کاروباری اور روحانی سرگرمیوں سے دور رہنے کی دھمکی دی ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے لیے نہ صرف ماہ صیام کی روحانی برکتوں سے لطف اندوز ہونا منع ہے بلکہ وہ معاشی اور اقتصادی طور پربھی بہت بدحالی کا شکار ہورہے ہیں۔ فرانسیسی ریڈیو کے مطابق کانگو کے مشرقی علاقوں میں بینک سمیت بازار بند پڑے ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ بدامنی کے شکار لوگوں میں سرفہرست مسلمان ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس جنوری کے آغاز سے ہی کانگو ڈیموکریٹک میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا ہے جس میں اب تک سات ہزار انسان مارے گئے ہیں جبکہ لاکھوں انسان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
خیال رہے کہ کانگو ڈیموکریٹک وسطی افریقہ میں واقع ہے۔ کانگو ڈیموکریٹک ری پبلک الجزائر کے بعد افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ افریقہ کے جنوبی صحرا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ 1884ء سے فرانسیسی استعمار میں رہاہے جس کے باعث کانگو ڈیموکریٹک دنیابھر میں فرانسیسی زبان بولنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ افریقہ میں نائیجیر، ایتھوپیا کے بعد آبادی کے لحاظ سے اس کا تیسرا نمبر ہے۔ کانگو ڈیموکریٹک کے مشرقی علاقوں میں 2015ء سے خانہ جنگی اور بدامنی جاری ہے جس کی وجہ وہاں موجود معدنیات کے ذخائر ہیں۔ کانگو ڈیموکریٹک کے مشرق میں اس وقت 100 مسلح گروپس سرگرم ہیں جن میں ایم 23 تنظیم کا نام سرفہرست ہے۔
کانگو ڈیموکریٹک ری پبلک کے مفتی اعظم شیخ علی موینی نے بتایا کہ کانگو میں مسلمان اس سے قبل بہت سکون کے ساتھ رہ رہے تھے۔ انہیں ملک کی عیسائی اکثریت سے کبھی پریشانی نہیں تھی۔ انہیں مکمل دینی آزادی حاصل تھی اور وہ پورے سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے مطابق کانگو میں اسلام عرب تاجروں کے ساتھ آیا تھا جس کے سبب یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، تاہم گزشتہ سالوں شروع ہونے والی نسلی و گروہی کشیدگی نے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، جس سے مسلمان اس مرتبہ خاصی پریشانی میں مبتلا ہیں۔