کسی نے کیا خوب کہا ہے: دنیا میں سب سے خوبصورت چیز، خود دنیا ہی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں موجود ایک بہت خوبصورت چیز، خود پاکستان ہی ہے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ اس وقت ہوا جب جامعة الرشید کے زیر اہتمام کوہاٹ اور اسلام آباد میں پروگرام ہورہے تھے اور ان میں شرکت کے لیے ہمیں روانہ ہونا تھا۔ ہماری منزل فراخ دلوں کا شہر پشاورتھا، جہاں فضلائے کرام جمع ہورہے تھے اور المنائے ایسوسی ایشن کے متحرک کردار مولانا عبداللہ خاور بھی ہم سفر بلکہ امیر سفر تھے۔
جامعة الرشید کی المنائے ایسوسی ایشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں فضلائے کرام کو متحرک، منظم اور متحد رکھنے کی کوششوں کی خوبصورت روایت کا آغاز کیا اور اس کے بعد نہ صرف دینی مدارس، بلکہ کئی یونیورسٹیز اس نظام کو کاپی کررہی ہیں۔ پشاورمیں کلیة الشریعہ کے بھائی عثمان غنی ہمارے میزبان تھے، جن کے خلوص اور چاہت میں پشاور کے لوگوں کی روایتی گرمجوشی کی جھلک نمایاں تھی۔ ہم کم و بیش 20 گھنٹوں سے حالت سفر میں تھے، اس لیے جاتے ہی آرام کرنا ضروری تھا۔ پشاور میں جاتی سردیوں کے آخری لمحے چل رہے تھے، لیکن انہوں نے بھی مشام جاں کو سرور آشنا کر دیا۔
نماز فجر کے بعد دن کی اولین سانسیں لیتی صبح نے ہمارا استقبال کیا اور بھائی عثمان ہمیں لیے قدیم پشاور میں جاپہنچے، تنگ لیکن بل کھاتی گلیاں، قدیم عمارتیں اور سال خوردہ دروازے، ہم جہاں پہنچے اسے ہشت نگری کہا جاتا ہے۔ یہ پشاور کے قدیم تاریخی شہر کا ایک حصہ ہے، جس کے 16 دروازے تھے۔ قدیم دروازوں میں سے کچھ ابھی تک محفوظ ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیکڑوں سال پہلے تہذیب و تمدن کیسی تھی؟ بھائی عثمان نے بتایا کہ ہشت نگری کے ساتھ ساتھ خیبر دروازہ، کوہاٹی دروازہ، لاہور اور کابلی دروازہ وغیرہ بھی موجود ہیں۔ پشاور کے ان قدیم دروازوں نے تاریخ کے کتنے اتار چڑھائو، کتنے ہی عرو ج و زوال، کتنے ہی الٹ پھیر دیکھے ہیں، گندھارا، اشوک اور موریہ دور سے لے کر غزنوی اور مغلیہ دور تک تاریخ کے کون کون سے دور ہیں جو یہاں نہیں گزرے؟ رہے نام اللہ کا۔
آج ہفتے کا دن اور 22 فروری تھی، پشاور کے فضلائے کرام سے ملاقات کے لیے جی پی او کینٹ میں واقع پاک ایڈ ویلفیئر ٹرسٹ کا دفتر منتخب کیا گیا، لیکن فضلائے کرام کی تعداد بڑھ جانے کے سبب قریبی مسجد میں اجتماع منتقل کردیا گیا۔ فضلائے کرام سے ملاقات ہمیشہ ایک سبق آموز، دلچسپ اور دیدہ زیب تجربہ رہا ہے۔ فضلائے کرام سے ابتدائی گفتگو میں ہم نے عرض کیا کہ جامعة الرشید کے نظام تعلیم کی بنیاد دینی و عصری تعلیم کے امتزاج پر ہے، وہی نظام تعلیم جس سے گزر کر کبھی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم ہیئت، ریاضی، فلسفہ، انجینئرنگ، طب اور فلکیات کے ماہر بنتے رہے ہیں۔ اس کی بنیاد وہ چودہ کوششیں بھی ہیں جو اکابر علمائے دیوبند نے کی ہیں، جن میں بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا فرمان، دارالعلوم دیوبندکی کوششیں، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے لے کر پاکستان کے قیام کے بعد علمائے دین کی کوششوں تک، جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جامعة الرشید کو بہت سے لوگ سیاسی جماعتوں کے مدمقابل سمجھتے ہیں، ایسا بھی ہرگز درست نہیں۔ جامعة الرشید کی سیاسی اپروچ سمجھنے کے لیے آپ کو چار تحریکات کو سمجھنا ہوگا: مجدد الف ثانی رحمہ اللہ، شاہ ولی اللہ، شیخ الہند رحمہم اللہ اور تحریک پاکستان۔ ان تحریکوں کو سمجھے بغیر آپ جامعة الرشید کے اقدامات کو نہیں سمجھ سکتے اور پھر ہم اسے سیاسی جماعتوں کی مخالفت یا سیاسی نکتہ نظر کا نام دینے لگتے ہیں۔
فضلائے کرام سے ملاقات کا وقت تو ایک گھنٹہ تھا مگر جب ہم نے گھڑی کی جانب دیکھا تو دو گھنٹے سے زائد وقت گزر چکا تھا اور یہ مجلس کسی بھی طرح جلد رخصت ہونے والی نہیں تھی۔ ہمیں آج شام دارالقرآن ایجوکیشن سسٹم غوری ٹاون اسلام آباد میں منعقد ہونے والے جلسے میں شریک ہونا تھا، جس کے داعی جامعہ کے سابق استاذ جناب قاری محمد وسیم صاحب تھے اور جامعة الرشید سے ان کی وابستگی کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ گزشتہ سال حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم بھی ادارے کی تقریب سے آن لائن خطاب فرماچکے ہیں، جبکہ اس سال ہمیں خصوصی ہدایت کی گئی تھی کہ اس پروگرام میں لازما شریک ہونا ہے۔ پشاور سے اسلام آباد کا سفر شروع ہوا اورپہلی بار یہ احساس ہوا کہ رستے کی ہر مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یوں تو کرا چی سے پشاور کے سفر میں بھی کوئی نماز ایسی نہیں تھی، جس میں ساری بس کے مرد حضرات مسجد میں نہ نظر آئے ہوں۔ پشاور کی بسوں کی یہ روایت بھی دل کو بھائی کہ ڈرائیور کو کسی ایک جگہ بھی نماز کا کہنا نہیں پڑا، ہر جگہ بس کا عملہ خود اعلان کرتا اور سبھی نماز پڑھ کر واپس بیٹھ جاتے۔ کاش یہ روایت پاکستان بھر کی بسوں میں شروع ہوجائے اور کسی ڈرائیور سے بحث و تکرار نہ کرنا پڑے۔
بہرحال ہم دارالقرآن ایجوکیشن سسٹم پہنچے تو پنڈال پہلے سے ہی بھرا ہوا تھا، اس تقریب میں علاقے کے متعدد علمائے کرام شریک تھے، مہمانان خصوصی میں مولانا ڈاکٹر علی طارق صاحب بھی رونق محفل تھے۔ یہیں برادرم مولانا عبداللہ مدنی سے ملاقات ہوئی، مولانا قاری وسیم صاحب اور ان کے ساتھیوں نے پروگرام بڑی خوبصورتی کے ساتھ منظم انداز میں مکمل کیا۔ ہمیں دینی و عصری تعلیم کے امتزاج پر گفتگو کا حکم ملا تو عرض کیا: اسلام کے پیغام کے پیغام کو جن چیزوں نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا، ان میں سے ایک: دینی و عصری تعلیم کی تفریق بھی ہے۔ تعلیم کبھی بھی دینی و دنیوی نہیں ہوتی ورنہ ”العلم علمان” فرما کر دینی تعلیمی اور میڈیکل سائنس کو ایک ساتھ نہ ذکر کیا جاتا۔ اسلام کے روشن ادوار میں علمائے دین کسی نہ کسی فن یا جدید علم سے بھی آراستہ ہوتے تھے۔ ورنہ قاضی عیاض امام مازریکے بارے میں یہ نہ فرماتے: الیہ کان یفزع الیہ فی الفتاوی، فی الطب فی بلدہ، کما یفزع الیہ فی الفتوی فی الفقہ۔ ان کے دور میں طب کا مسئلہ ہو یا فقہ کا، ان کے شہر میں ان دونوں علوم میں ان کی رائے ہی حتمی سمجھی جاتی تھی۔ نظام الملک طوسی ایک طرف سلجوقی وزیر تھے، دوسری طرف فقیہ اور محدث بھی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور میں ریاضی کے امام بھی تھے۔ ابو زکریا فراء نحوی جن کی علم نحو میں آرا سے دینی مدارس کے ہر طالب کو شناسائی ہے، وہ اپنے دور میں حدیث، فقہ، کلام اور فن قرات کے امام تھے، اس کے ساتھ ساتھ علم نجوم کے ماہر تھے اور فن طب پر مہارت رکھتے تھے۔ مولانا فخر الحسن گنگوہی رحمہ اللہ جہاں ایک طرف محدث اور عبقری عالم دین و محدث تھے، دوسری طرف طب کے بھی امام تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے بڑے بھائی مولانا عبدالعلی ندوی جہاں ندو العلما کے سربراہ بنے اور حدیث و دینی علوم کے ماہر تھے، وہیں پر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی تھے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: الجامعون، دکتور عواد الخلف) (جاری ہے)