فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان 19 جنوری کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کاپہلا مرحلہ ختم ہوگیا۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ42 روز پر محیط تھا جس میں حماس اور اسرائیل نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیلی فورسز غزہ کی پٹی کے متعدد علاقوں سے انخلا کرنے پر راضی ہوگئی۔ شمالی غزہ سے جنگ کے باعث نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کی بھی واپسی ہوگئی ہے۔
انیس جنوری کو شروع ہونے والے تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کے پہلے مرحلے میں تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 8 لاشوں سمیت 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ ہفتے کو ساڑھے بجے ختم ہوگیا، تاہم دوسرا مرحلہ ابھی تک غیر واضح ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو سمیت متعدد وزرا بارہا کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی معاہدے کو ختم کیا جائے گا۔ عرب میڈیا کے مطابق دوسرے مرحلے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ اسرائیل، قطر اور حماس کے وفود کے درمیان جمعے کو قاہرہ میں مشاورت ہوئی ، تاہم اس مشاورت کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حماس کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے اگلے مراحل کے لئے مذاکرات کی بجائے اسی مرحلے میں 42 روز کی توسیع کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق حماس نے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں 42 دن کی توسیع کی تجویز مسترد کردی ہے۔ حماس نے کہاہے کہ یہ جنگ بندی کے معاہدے سے متصادم ہے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی تجویز میں اضافی قیدیوں کے تبادلے کے بدلے ماہ رمضان کے دوران جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مصر کے سکیورٹی ذرائع نے گزشتہ روز انکشاف کیا تھا کہ قاہرہ میں اسرائیلی وفد نے پہلے مرحلے کو مزید 42 دن تک وسعت دینے کی کوشش ہے۔تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس نے توسیع کی ان کوششوں کو مسترد کردیا اور دوسرے مرحلے میں جانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ معاہدے کے شروع میں طے پانے والے اُمور پر اتفاق کیا گیا۔ عرب میڈیا کا اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے کہناہے کہ تل ابیب حماس کو غیر مسلح کرنے سے قبل معاہدے کا پابند نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’غزہ کے مستقبل پر بات کرنے، حماس کو غیر مسلح کرنے اور فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرنا چاہتا ہے‘۔دوسرے مرحلے میں باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی حوالگی اور تباہ شدہ فلسطینی غزہ سے اسرائیلی انخلا طے کیا گیا۔
الشرق الاوسط نے حماس کے ذمہ دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کا آغاز نہ ہونا اسرائیل کی وجہ سے ہے۔ اس کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حماس کے پاس اس وقت اسرائیل کے 58 قیدی موجود ہیں جن کے بارے میں اسرائیلی فوج نے رپورٹ دی ہے کہ ان میں سے 34 مارے جاچکے پیں۔ دوسرا مرحلہ باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہے جبکہ تیسرا مرحلہ غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ہے جس پر اقوام متحدہ کے مطابق 53 بلین ڈالرز کی لاگت آئے گی،جس کی مدت پانچ سے سے زائد ہوگی۔ مصر سمیت متعدد عرب ممالک تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر خطے میں ان کے قیام کو یقینی بنانا اور غزہ کی پٹی میں ایسا حکومتی نظام قائم کرنا ہے جس میں حماس کا کوئی کردار نہ ہو۔
ان منصوبوں پر کام کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس تجویز کے بعد ہوا جس کے تحت غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا تھا، جن کے لیے مصر، اردن یا کسی اور ملک میں انہیں بسانے کی بات ہوئی تھی۔ تاہم امریکی صدر کی یہ تجویز مسترد کردی گئی۔ فلسطینیوں سمیت مصر اور اردن کے ساتھ دیگر عرب ممالک نے بھی اس تجویز کو مسترد کردیا۔ قاہرہ میں ایسوسی ایٹد پریس کے سابق مدیر برائے مشرق وسطیٰ ڈان پیری نے اسرائیلی یروشلم پوسٹ کے لیے ایک تحریر لکھی ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ حقیقت میں عرب ممالک اور فلسطینیوں پر دباو ڈالنے کی چال ہے تاکہ حماس کو اقتدار سے ہٹایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عرب ممالک، خصوصاً قطر، حماس کی مالی امداد بند کر دیں۔ اگرچہ امریکی صدر اپنی تجویز واپس لے چکے ہیں مگر اب مصر کی جانب سے تعمیر نو منصوبے کو اہمیت حاصل ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق اب تک چار مجوزہ منصوبے بن چکے ہیں تاہم مصر کا منصوبہ عرب دنیا کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کے متبادل کے طور پر سرفہرست ہے۔ قاہرہ میں اس منصوبے کی تکنیکی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے جس کے تحت پہلے ملبے کو ہٹایا جائے گا اور پھر غزہ کی تعمیر نو ہو گی۔ساتھ ہی ساتھ ان نکات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ اس عرصہ میں غزہ کے باسی کہاں رہائش پذیر ہوں گے اور جنگ کے بعد حکومتی نظام کیا ہو گا۔ تاہم غزہ کے مسلح گروہوں، بشمول حماس اور اسلامی جہاد کا مستقبل اب تک زیر غور ہے۔اس منصوبے کے تحت ایک بفر زون بھی تعمیر کیا جائے گا جبکہ غزہ اور مصر کی سرحد پر سرنگیں کھودنے کے عمل کو روکنے کے لیے رکاوٹیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
مصری انجینیئرز سنڈیکیٹ کے صدر ڈاکٹر طارق کے مطابق لاگت اور مختلف پارٹیوں کی شمولیت کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل ہونے میں تین سے پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق مصری منصوبے میں یہ تجویز شامل ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد ان گروہوں کو غیرمسلح کیا جائے۔ اس ریاست کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو گا اور ایک بفر زون بھی بنایا جائے گا تاکہ اسرائیل کو یہ یقین دہانی کروائی جا سکے کہ غزہ سے مستقبل میں کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ عرب خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مصر نے گزشتہ دنوں حماس سے اس کے پاس موجود میزائل اور دیگر اسلحہ ذخائر حوالے کرنے کا مطالبہ کیاہے،جسے حماس نے سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مصری انٹیلی چیف حسن رشاد کے ساتھ حماس راہنما خلیل الحیہ کی قاہرہ میں ہونے والے ملاقات میں یہ مطالبہ رکھا گیا تھا جسے خلیل الحیہ نے مسترد کیا تھا۔ خیال رہے کہ مصر کی جانب سے غزہ کی تعمیر نو منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس کے بغیر غزہ کی پٹی کا انتظام چلانے کے لیے ایک فلسطینی کمیٹی قائم کی جائے جس کی معاونت بین الاقوامی طاقتیں اور عرب ممالک کریں گے۔عرب میڈیاکے مطابق حماس ماضی میں یہ بیان دے چکی ہے کہ وہ ایک قومی سطح کی کمیٹی کے سامنے غزہ کا انتظام چھوڑنے کو تیار ہے تاہم حماس اس کمیٹی کے اراکین کے انتخاب میں کردار چاہتی ہے اور یہ بھی کہ اس کی مرضی کے خلاف زمینی فوج کی تعیناتی نہ ہو۔