مولانا حامد الحق شہید۔ جرم بے گناہی کا مقتول

امت مسلمہ کی تاریخ کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو عالم اسلام کو داخلی سطح پر جن فتنوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ان میں خوارج کا فتنہ سر فہرست ہے۔ اس فتنے کی پیش گوئی خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی تھی کہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوگا جو دیکھنے میں تو بڑا کٹر دیندار ہوگا، ان کی عبادات اور جفاکشیوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہوگا لیکن یہ لوگ درحقیقت دین سے ایسے نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔

چنانچہ یہ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں ظاہر ہوا، اس نے سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور شیر خدا حضرت علی کو نہروان کے تاریخی معرکے میں ان کے ساتھ دودو ہاتھ کرنے پڑے۔ اس کے بعد بنو امیہ کے سوسال اور بنو عباس کے ابتدائی دو سو برسوں میں کوئی خلیفہ اور حکمران ایسا نہیں گزرا جس کے خلاف خوارج کا کوئی گروہ کہیں سے نہ اٹھا ہواور مسلم سماج میں فتنہ و فساد نہ پھیلایا ہوا۔ یہاں تک کہ حجاج بن یوسف جوکہ بڑا ہی سخت گیر، سنگدل اور بے رحم اموی کمانڈر رہا، خوارج نے عراق میں ایک سال تک ان کے بھی ناک میں دم کیے رکھا۔
آج خوارج کے لیبل سے کوئی مخصوص فرقہ تو موجود نہیں ہے تاہم خوارج کا نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ وہ نظریہ ہے امت کے اجتماعی دھارے سے ہٹ کر قرآن، سنت، شریعت اور جہاد کی من مانی تعبیر کرنا، اپنی اس من مانی تعبیر ہی کو حق سمجھنا اور اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کو خواہ وہ کتنے ہی بڑے علمائ، مشایخ اور متقی وپرہیزگار لوگ کیوں نہ ہوں کافر، مرتد، زندیق اور واجب القتل سمجھنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے خوبصورت چہرے کو یہ خارجی ذہنیت جس قدر نقصان پہنچا رہی ہے، اتنا تو شاید امریکا اور اسرائیل بھی نقصان نہیں پہنچا رہے ہوں گے۔ اللہ کے گھروں، مساجد کے اندر تخریب کاری کرکے درجنوں بے گناہ لوگوں کو اڑا دینا، مولانا حسن جان، مولانا نور محمد، مولانا معراج الدین، مولانا رحیم اللہ حقانی اور مولانا سمیع الحق جیسے علماء ومشایخ کو بے دردی سے شہید کرنا، عام مسلمانوں، پولیس والوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو شہید کرکے ان کے بچوں کو یتیم اور بیویوں کو بیوہ کر دینا۔ کوئی بھی ایسا شخص جس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہو، وہ اتنی سفاکیت، بہیمیت اور جنونیت کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے اور اس فتنے کا سر کچلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

اس فتنے کا تازہ شکار ہمارے برادر گرامی، مخدوم زادے اور انتہائی معصوم اور پاکیزہ فطرت کے حامل عظیم انسان حضرت مولانا حامد الحق بنے ہیں جن کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ لکھتے ہوئے قلم لرزیدہ ہے۔ وہ ایک عظیم باپ کے بیٹے اور عظیم دادا کے پوتے ہونے کے ناتے ہی اسلامیان پاکستان کے لیے واجب الاحترام نہیں تھے بلکہ وہ اپنی ذات میں بھی ایک انجمن تھے۔ ایک بہترین عالم دین، شیریں بیان خطیب اور ایک معتبر سیاسی و دینی لیڈر تھے۔ انہوں نے علم، متانت، سنجیدگی، بردباری اور سادگی میراث میں پائی تھی۔ مولانا سمیع الحق صاحب کی شہادت کے بعد مولانا حامد الحق کو ان کا سیاسی جانشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے احسن انداز میں اس ذمہ داری کو نبھایا۔ دو سال پہلے کراچی پریس کلب کے میٹ دی پریس پروگرام میںانہیں مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں انہوں نے عالم اسلام اور وطن عزیز پاکستان کو درپیش مسائل چیلنجز پر نہایت جچے تلے انداز میں بڑی شاندار گفتگو کی جسے وہاں موجود صحافی دوستوں نے بہت سراہا۔ ان کے لہجے میں وہی تیقن، تدبر اور تفکر جھلک رہا تھا جو ان کے والد گرامی کے انداز بیان کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔

راقم کی خوش نصیبی تھی کہ لکھنے لکھانے کی مشق کی برکت سے شہید اسلام حضرت مولانا سمیع الحق شہید کی خصوصی شفقتیں اور عنایات میسر رہیں۔ حضرت نے مجھے پابند کیا ہوا تھا کہ جب بھی گاؤں جانا یا گاؤں سے کراچی جانا ہو تو اکوڑہ سے ہوکر جانا ہے۔ اس لیے سال میں ایک دو دفعہ حضرت کی خدمت میں حاضری لگتی اور حضرت کی بے پناہ محبتیں سمیٹنے کا موقع ملتا۔ ان ملاقاتوں میں دیگر بھائیوں کے علاوہ حضرت مولانا حامد الحق صاحب بھی عموماً موجود ہوتے اور ان کے ساتھ بھی باہمی دل چسپی کے مختلف موضوعات پر تبالہ خیال کا موقع مل جاتا۔ گزشتہ سے پیوستہ رمضان کو میں اپنی والدہ رحمہا اللہ کو پشاور سے گاؤں کے لیے رخصت کرکے اکوڑہ حاضر ہوا، سیدھا حقانی قبرستان گیا اور اپنے محبوب ومخدوم حضرت مولانا سمیع الحق شہید اور دیگر بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر چپکے سے واپس نکلنا چاہ رہا تھا کہ برادر گرامی حضرت مولانا راشد الحق صاحب نے دیکھ لیا، انہوں نے روکنا ہی تھا تو رک گیا۔ اگلے روز حضرت مولانا انوار الحق کی خدمت میں حاضری ہوئی اور پھر مولانا حامد الحق صاحب، مولانا راشد الحق صاحب، مولانا اسامہ سمیع صاحب اور ان کے صاحبزادوں کے ساتھ کافی دیر تک حضرت شہید کی یادوں اور باتوں کا ذکر جمیل ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو جن اوصاف جمیلہ سے امتیاز عطا فرمایا ہے، ان میں اب دو عظیم شہیدوں کے خون کی لالی بھی شامل ہوگئی ہے، وہ خون جو جرم بے گناہی کی سزا میں بہایا گیا ہے، یقینا یہ لہو قیامت کے دن ان کی عظمت کردار کی گواہی میں بولے گا
بلوح تربت من یافتند از غیب تحریرے
کہ این مقتول را جز بے گناہی نیست تقصیرے