٭بلڈ ٹیسٹ کیلئے اپنا خون نکلوانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر خون دینے سے اتنی جسمانی کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو کہ روزہ رکھنے کے قابل نہ رہے تو روزے کی حالت میں اس سے اجتناب کرے۔ ٭کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا سوائے اس کے کہ خدانخواستہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو اور اس سے پانی یا دوا رِس کر معدے یا دماغ تک پہنچ جاتی ہو تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
٭ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دوا ڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جس مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث میں صریح حکم نہ ہو وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتا ہے اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو اس کے فتوے پر عمل کریں۔ ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی لکھتے ہیں: انجکشن جلد کے اندر پٹھوں میں یا رگوں میں لگانا ہو بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے افطار کے وقت تک انتظار کرے اگر رگوں میں خون چڑھائے گا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ (فقہ الاسلامی وادِلتہ، جلد: 3، ص: 1412) ٭روزے کی حالت میں قے آنے کی فقہائے کرام نے 24ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے: (الف) بے اختیار منہ بھر کر قے آئے اور اس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے۔ (ب) طبیعت کی خرابی کے سبب جان بوجھ کر قے کرے، اگر ایسی قے منہ بھر کر آ جائے تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (ج)باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ٭نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبانی نیت ضروری نہیں مستحب ہے۔ اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
٭سحری سے پہلے غسل ِجنابت واجب ہو چکا تھا مگر سحری ختم ہونے سے پہلے غسل نہ کر سکا یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جنبی ہو جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ اس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے، البتہ واجب غسل کو اتنی دیر تک موخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزر جائے مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس سے نماز قضا ہو جائے گی۔ ٭وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی سنت ہے۔ روزے کی حالت میں فقہائے احناف نے مسواک کی اجازت دی ہے خواہ وہ خشک ہو یا تر یا اس میں کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہو۔ تر مسواک کی لکڑی کا کوئی ریشہ حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ منجن ٹوتھ پاوڈر اور پیسٹ اس سے مختلف ہے کہ اس میں ذائقہ بہت محسوس ہوتا ہے نہ اس پر مسواک کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ مسواک کی سنت ادا کرنے کیلئے اس کی ضرورت ہے، حتی الامکان روزے کی حالت میں اس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کے ذرات حلق میں واضح طور پر محسوس ہوں اور اس کا قوی اندیشہ بھی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہو جائے گا۔ الغرض منجن یا ٹوتھ پاوڈر یا پیسٹ سے ممانعت کا مشورہ احتیاط کی بنا پر ہے کہ بعض اوقات غیرارادی طور پر اس کے ذرات حلق میں چلے جانے کا امکان رہتا ہے۔
٭روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کر سکتے ہیں، ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں کو تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ ٭دمے کا مریض جو آلہ تنفس (Inhaler )کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ مرض دائمی ہے تو وہ فدیہ ادا کرے۔ اگر روزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدت کی بنا پر انہیلر استعمال کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو بعد میں قضا کرے ورنہ فدیہ ادا کرے۔ ٭انتہائی درجے کے ذیابیطس کے مریض یا ایسے تمام امراض میں مبتلا مریض جن کو خوفِ خدا رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو ورنہ مرض بے قابو ہو جائے گا یا کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسے تمام لوگ شرعی معذور ہیں انہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کریں لیکن اگر فدیہ ادا کر دیا ہے اور بعد میں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اس بیماری سے صحت عطا کر دی تو قضا بھی کرے فدیہ میں دیے ہوئے مال کا ثواب اسے مل جائے گا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا مقرر کیا ہے ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”سو جو شخص خوش دلی کے ساتھ فدیے کی مقررہ مقدار سے زیادہ ادا کرے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے۔ (البقرہ: 184) فدیہ اور فطرے کی مقدار برابر ہے اس لیے ہر شخص اپنی مالی حیثیت کے مطابق دو کلو گندم یا چار کلو جو یا چار کلو کھجور یا چار کلو کشمش یا پنیر کی قیمت فدیے اور فطرے کے طور پر ادا کرے۔
مسافر یا عارضی مریض فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے عہدہ بر آ نہیں ہوں گے بلکہ انہیں صحت یابی کے بعد عذر کی بنا پر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہو گی۔ ٭روزہ رکھنے کی صورت میں حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کی اپنی یا بچے کی صحت کے بگڑنے کا ظنِ غالب ہو تو وہ رمضان کا روزہ چھوڑ سکتی ہے لیکن اِس کی تلافی فدیے سے نہیں ہو گی بلکہ بعد میں قضا روزے رکھنے ہوں گے۔ اسی طرح ایامِ مخصوص کے دوران عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، ایام ختم ہونے پرغسلِ واجب کرکے پاک ہو جائے اور اتنے دنوں کے قضا روزے رکھے جتنے دنوں کے روزے چھوٹ گئے ہیں، ان کی تلافی فدیے سے نہیں ہو گی۔ ٭جواں عمر حضرات روزے کے دوران بیوی کے ساتھ بوس وکنار سے اجتناب کریں، اگرچہ یہ جائز ہے لیکن شہوت کے غلبے کے پیش نظر روزے کے فاسد ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اس لیے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
٭غیبت کرنا جھوٹ بولنا چغلی کھانا کسی پر بہتان لگانا کسی کی عیب جوئی کرنا لوگوں کو ایذا پہنچانا عام حالات میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت و حرمت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ اِن باتوں سے فقہی اعتبار سے تو روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا لیکن روزہ مکروہ ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے کامل اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔