تیر و تفنگ میں تمہاری آزمائش ہے

مسلمانوں کی تاریخ پڑھیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ان کی زندگی دشمنوں سے معرکہ آرائی ہی میں صرف ہوئی ہے۔ دشمن کے ساتھ مقابلے کیلئے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے بلکہ سن گن رکھتے تھے کہ کہیںکوئی غنیم ان پر حملہ آور ہونے کی تیاری تو نہیں کر رہا؟ ان کی ابتدائی زندگی آسائشوں میں کم اور میدانِ جنگ میں زیادہ گزری ہے بلکہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا تھا کہ ابھی ایک معرکہ سر ہوتا تھا اور تلواریں اتاری ہی گئی ہوتی تھیں کہ اچانک اگلے معرکے کی تیاری کی صدا لگ جاتی تھی۔ ہمارے اسلاف جنگجو ضرور تھے لیکن دفاعی جنگجو تھے۔ ا پنے وطن اور دین کا دفاع کرنے کیلئے وہ کبھی اونٹ پر اور کبھی گھوڑوں کی پیٹھوں پر سوار رہتے تھے۔

آج لوگ ا نہیں بے شک وارلارڈز کہیں لیکن فی الاصل وہ وار لارڈز نہیں تھے، وہ مجاہد تھے، جنگوں کے شناور تھے اور قوموں پر غالب آ جانے کے بعد مغلوب رعایا پر حد درجہ شفیق ہوتے تھے۔ تلواریں ان کا زندگی کا سامان اور زرہیں ان کے زیور تھے۔ دورِ صحابہ رضوان اللہ علیہم میں ہر صحابی کے گھر میں ایک تلوار، چند تیر اور ایک دو زرہیں لازمی ہوا کرتی تھیں۔ اگر ان کے گھروں میں یہ سامان نہ ہوتے تو دشمن شاید انہیں اچک کے لے جا چکے ہوتے۔ وہ اگر رات کے راہب تھے تو دن کے شہ سوار تھے۔ مدینے کی ریاست کے قیا م کے بعد دشمنوں نے چاروں طرف سے اس کا گھیرائو کیا ہوا تھا۔ نوزائیدہ ریاست کو نعوذ باللہ وہ فنا کر دینا چاہتے تھے۔ اس لئے دفاعی جنگیں ان کیلئے لازم ٹھہری تھیں۔ سازوسامان کم ہوتے، تب بھی عقیدے وریاست کے دفاع کیلئے کسی بھی قسم کے سمجھوتے پر وہ ہرگز تیار نہ تھے۔ بعض دفعہ تو بلکہ حالات ایسے ہو جاتے تھے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بھی خطرات لاحق محسوس ہوتے تھے لیکن نہ آپ خود میدانِ جہاد سے پیچھے ہٹتے تھے اور نہ صحابہ کرام آپ کی مدافعت سے غافل رہتے تھے۔ عقیدہ اسلام اور دفاعِ وطن ان کے نزدیک اس قدر عزیز تھے کہ صحابہ کرام اپنی پیٹھوں پر تیر کھا لینا پسند کر لیتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ آنی گوارا نہیں کرتے تھے۔ لاتعداد صحابہ کرام کی شہادتیں ہوئیں لیکن دین قائم ودائم رہا اور انہی کی جانفشانیوں کا نتیجہ ہے کہ کرہ ارض پر آج ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی موجودی کا مسلسل احساس دلاتے رہتے ہیں۔

پھر بنو امیہ و بنو عباس کا طویل دور آیا۔ اگرچہ اندرونی طورپر ان ادوار پر بہت گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ دفاعِ دین ودفاعِ وطن کو انہوں نے بھی ہمیشہ مقدم رکھا۔ پورا افریقہ، ہندوستان اور سندھ انہی حکمرانوں کے دور میں پرچمِ اسلام کے ماتحت آیا۔ یہاں تک کہ مراکش کے راستے وہ ہسپانیہ اور یورپ کے اندر تک داخل ہوگئے اور حکمرانی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ تاریخ اب بھی انہیں یاد رکھے ہوئے ہے۔ وہ دور تیر وتلوا ر سے کہیں آگے نکل چکا تھا۔ میدان میں اب دور مار ہتھیار، منجنیق بھی آچکا تھا اور منجنیق تھی تو ا س کے لئے گولہ بارود کی تیاری بھی تھی۔ مسلمانوں نے اس نئی ٹیکنالوجی سے پورا فائدہ اٹھایا اور دشمنوںکا سر کچلنے کیلئے ان کا مکمل سہارا لیا۔ یہی منجنیق تھی جس نے محمد بن قاسم کو راجہ داہر کے قلعے کی فتحیابی کا راستہ دکھایا تھا۔ اپنے دور کی وہ ایک توپ تھی۔ دور کچھ اور آگے بڑھا تو سمندروں میں بھی مسلمانوں کی تگ و تاز بڑھی۔ یہاں تک کہ وہ سمندروںکے شناور بن گئے۔ سمندروں کی ہیبت ناکی اب انہیں قطعی خوف زدہ نہیں کرتی تھی۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے مضبوط بحری جنگی بیڑے تیار کیے بلکہ ان کی روانی کی خاطر مقناطیس بھی دریافت کیا اور سمندری راستوںکے نقشے بھی تیار کیے۔ ان تمام جنگی تیاریوں نے مسلمانوں کو دنیا کی ایک ایسی لازوال قوت بنا دیا کہ یورپی سپہ سالار بھی ان سے تھرانے لگے۔ تلواریں، زرہیں، کمپاس، نقشے اور منجنیقیں یہ تمام وہ جنگی سامان تھے جنہیں مسلمانوں نے خود ایجاد کیا تھا اور دشمن جن کی ہیبت سے کانپتے تھے۔ یہ زمانہ خلافت ِعثمانیہ کا تھا جو کم از کم سات سو سالوں تک محیط رہا۔ دور و نزدیک کی طاقتیں ان سے سدا خوف زدہ رہیں۔ اسی دور میں ترک سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کی خاطر ایک نئی جنگی حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے خشکی پر جہاز چلانے کا محیر العقول فیصلہ کیا اور لکڑی کے تختے بچھا کر، ان پر چربی ملی اور پھر ان تختوں پر کشتیاں چلا کر عقب سے دشمن کے سمندر میں داخل ہوئے۔ محمد الفاتح کی یہ حکمت عملی بہت کامیاب رہی اور سلطنت روما کے دارالحکومت کو اس نے ہمیشہ کیلئے ان سے چھین لیا۔

اس کے بعد مغربی طاقتوںکا دور آیا جو کم ازکم ڈیڑھ سوسالوں تک حاوی رہا۔ برصغیر میں مغلوں نے پانچ چھ سو سال تک حکومت کی مگر کوئی طاقت انہیں بھی زیر نہ کرسکی، تاہم ترکوںکی مانند انہوں نے بحری قوت بڑھانے کی طرف مطلق توجہ نہیں دی جبکہ سمندر نے برصغیر کو گھیرا ہوا بھی تھا۔ اس کے باوجود برطانوی بادشاہت نے ان پر سمندر کے راستے سے جنگ نہیںکی بلکہ وہ چور بازاری، کاروباری راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور پھر حاوی ہوتے چلے گئے۔ ٹیپو سلطان کی داستانِ حیات میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا میزائل ایجاد کیا تھا جس کی مار تین چار میل دور تک کی تھی۔ ا س کی جانب سے یہ ایک بالکل نیا جنگی اسلحہ تھا لیکن چونکہ انگریز بہت جدید اسلحے اور ساز و سامان سے لیس تھے، اس لئے پورے برصغیر پر اپنا قبضہ جماتے چلے گئے۔
بعد میں اللہ کے فضل وکرم سے ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آیا جہاں ہماری افواج نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی۔ اِس وقت بھی ہم مسلم دنیا کی بہترین مسلح افواج اور واحد ایٹمی قوت ہیں اور پاکستان کے عوام خاص طور پر اور دنیا بھر کے مسلمان عمومی طورپر اسی باعث سر اونچا کیے ہوئے ہیں لیکن دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہمارا دشمن ملک ہم سے بالکل بھی مرعوب نہیں۔ وہ جب چاہتا ہے ہمارے سرحدی شہروں پر گولہ باری کرکے شہریوں او ر مکانات کو نقصان پہنچاتا ہے، سرحدی جھڑپیں مسلسل جاری رکھتا ہے اور کشمیر کے بارے میں مرعوب ہوئے بغیر، جیسے چاہے سیاہ قوانین نافذ کرتا ہے۔

مسلم قوم کے پاس اسلحہ نہ ہوتو تب بھی اسے دوبدو معرکے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ دشمن کو سفارتی دھمکی کوئی اثر نہیں دکھا سکتی جب تک کہ اسے خاک اور دھول نہ چٹا دی جائے۔
اللہ کے فضل سے ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کئی اعتبار سے بہت آگے ہے۔ ہمارے پاس اس وقت بیلسٹک میزائل ہیں جو دشمن کے کسی بھی شہر کو اپنی زد میں لے سکتے ہیں۔ قوم اپنے سیاست دانوں سے حد درجہ مایوس ہے کہ انہیں صرف بیرونی غلامی ہی راس آتی ہے لیکن اپنی افواج سے اسے بے شمار امیدیں وابستہ ہیں۔ بیرونی طاقتوں، خصوصاً بھارت سے اگر کوئی قوت بھرپور طریقے سے نمٹ سکتی ہے تو وہ صرف ہماری مسلح افواج ہیں۔