زندانی کے نام کھلا خط

سابق، وزیر اعظم عالی جناب عمران خان صاحب! سلام قبول کیجیے۔
سنا ہے آپ نے آرمی چیف کے نام کچھ خطوط لکھے ہیں، معلوم نہیں آپ نے کیا لکھا ہوگا، یہ مگر پتہ چلا ہے کہ آپ کو ان کا جواب نہیں ملا ہے۔سوچا جب آپ نے خطوط کا سلسلہ شروع کر ہی لیا ہے تو میں بھی کیوں نہ ایک خط لکھ کر آپ سے مخاطب ہو جاؤں، کیا پتہ میرے خط سے ہی آپ کا غم غلط ہو۔

یہ واضح کرتا چلوں کہ میں آپ کی درگاہ کا جاروب کش ہوں اور نہ ہی دشمنوں میں شمار ہوتا ہوں بلکہ میرا شمار بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کی آپ سے اچھی امیدیں بندھتی ٹوٹتی رہتی تھیں، جو آپ کے حوالے سے مسلسل امید و بیم اور یاس و امید کی حالت میں رہتے تھے۔ جن کی امیدیں آپ اپنی تقاریر کے ذریعے بندھا دیتے اور کردار کے ذریعے توڑ دیتے۔ سو خاطر جمع رکھیں کہ میں یہ خط آنجناب کو خلوص نیت سے لکھ رہا ہوں، اگر آپ تک یہ پہنچا اور آپ نے پڑھا تو مجھے امید ہے کہ آپ کو ضرور فائدہ ہوگا۔ سب سے پہلے اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی پریشانی دور، آپ کا غم ہلکا کرے، آپ کی تنگی کو کشادگی میں بدلے اور آپ کو موجودہ شب وروز کا نعم البدل عطا کرے جو آپ سلاخوں کے پیچھے گزار رہے ہیں کہ آپ بھی آخر ہمارے ہی بھائی اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ایک حقیقی مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے اور میں بھی اسی خیر خواہی کے جذبے سے یہ خط لکھ رہا ہوں۔

آگے بڑھنے سے پہلے عرض کرتا چلوں کہ آپ نے عوام کے دلوں میں فوج کیلئے جو نفرت کا بیج بویا تھا وہ بھی خوب بار آور ہوچکا ہے، بلکہ اس کی فصل اتنی پھل پھول چکی ہے کہ متاثرین کو اسے کاٹنے کی کوئی سمجھ ہی نہیں آرہی اور مہنگائی میں بھی کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جان کر آپ خوش ہوں گے یا پریشان، ہے مگر یہ سب آپ ہی کا کیا دھرا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ زندان میں رہتے ہوئے آپ اپنے کیے پر پشیماں ہوئے ہیں یا نہیں، کسی جرم کا اعتراف کیا ہے یا اب بھی خود کو معصوم سمجھ رہے ہیں، ہمارے ہاں مگر دو جرم آپ کے بڑے واضح ہیں۔ پہلا یہ کہ بحیثیت حکمران کسی مجرم کو سزا دینے کا جائز اختیار آپ کے پاس تھا لیکن توہین، تحقیر اور تذلیل کا نہیں تھا، افسوس کہ آپ کسی کرپٹ کو سزا دے سکے اور نہ ہی قوم کا لوٹا ہوا مال واپس کر سکے، حالانکہ یہ آپ کے منشور کا بنیادی حصہ تھا۔ اس کے برعکس آپ اپنے پورے دور اقتدار میں سیاسی مخالفین کو بڑی بے رحمی سے ذلیل کرتے رہے، حالانکہ کسی کو ذلیل کرنے کا اختیار خدا نے کسی کو بھی نہیں دیا، چاہے وہ حکمران ہی کیوں نہ ہو۔ اس حوالے سے احادیث کی کتابوں میں بیان کردہ ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا جس سے بات واضح ہو جائے گی۔ جب غامد قبیلے کی ایک عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کیا جا رہا تھا اور ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر پتھر مارا ، جس سے خون کا فوارہ پھوٹ کر اس کے چہرے پر پڑا تو اس نے غصہ ہو کر اسے کچھ برا بھلا کہا ، اس موقع پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھہر جاؤ، برا بھلا مت کہو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا(جو ظلما لاتعداد انسانوں کا حق کھاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اسے بھی معاف کر دیا جائے، اس سے اچھی چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے مستحق سزا ہونے کے باوجود اس کی اہانت جائز نہیں ہے۔

دوسرا جرم یہ ہے کہ سیاسی بصیرت کا حامل، اقتدار کے اوصاف سے بہرہ ور اور ایک مدبر حکمران اپنے اقتدار کی خاطر قوم اور ریاست کا ستیاناس نہیں کرتا، ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہیں دھکیلتا، عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا، انہیں ڈھال نہیں بناتا، ملک کے محافظوں کو نہیں للکارتا اور نہ ہی عوام کے دل ان کی نفرت سے بھرتا ہے، بلکہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں وقتی طور پر سرنڈر کرتے ہوئے پیچھے ہٹتا ہے اور مناسب موقع پر پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر واپس آتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان سپاہیوں کی اصل طاقت ایمان اور عوام کی محبت ہے، میں رہوں یا نہ رہوں، وطن کو مگر بہرحال نہیں ٹوٹنا چاہیے، ملک رہے گا تو حکمران آتے جاتے رہیں گے لیکن اگر یہ نہ رہا تو سمجھیں نہ گھر رہا، نہ ٹھکانا رہا اور نہ ہی آئندہ کرسی نشینی کی تقاریب منعقد کی جا سکیں گی۔
جس ترکش سیریز ارطغرل دیکھنے کا آپ بار بار پاکستانی عوام کو دعوت دیتے رہے ہیں، اس میں تو ہم نے ارطغرل غازی کو بارہا ریاست کو خانہ جنگی سے بچانے کی خاطر ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا لیکن افسوس آپ نے خود اس سے کچھ نہیں سیکھا اور کرسی کی خاطر اپنی انانیت پر اڑے رہے، تاآنکہ زبردستی آپ کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کیا گیا جس کا نقصان آپ کی ذات سمیت پورے ملک وقوم کو ہوا۔ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کو اپنی حد میں رہنا چاہیے، یہ صرف آپ ہی نہیں ہر سیاست دان بلکہ ہر پاکستانی کی یہی خواہش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ فوج کو ہر بار یہ موقع کون فراہم کرتا ہے؟ کیا آپ خود ان کے کندھوں پر سوار ہو کر نہیں آئے تھے؟ یہ کیا بات ہوئی کہ خریدنے والا مجرم ٹھہرے اور اپنا ضمیر، شرف، موقف اور اختیار بیچنے والا بے قصور ٹھہرے؟ جب آپ کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائے تو قابل ستائش اور کوئی اور ان کے اشاروں پر آئے تو قابل ملامت۔ ایں چہ بوالعجبی است!
بخدا اتنی رقابت تو سوکنوں کی بھی آپس میں نہیں رہتی جتنی کہ آپ سیاست دانوں کے بیچ اقتدار کے حوالے سے ہے۔بہر حال شر میں بھی خیر کے پہلو تلاش کرنے چاہئیں کہ ہر شر کے اندر کہیں نہ کہیں خیر بھی چھپی ہوتی ہے۔ سو قید بھی نعمت میں بدل سکتی ہے، بشرطیکہ اپنے کیے پر پچھتاوا ہو، راہ توبہ کی ہو، منصوبہ کسی اعلی مقصد کی تکمیل کا ہو اور حتمی ہدف آخرت اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔قید میں رہتے ہوئے اس کے فوائد کی بات سننا ممکن ہے آپ کو محض فریب، غیر معقول اور ناگوار لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ قید کے بھی کچھ فوائد ہیں، چنانچہ قید کا سب سے پہلا سبق صبر ہے، کیونکہ قیدی کے پاس اپنے حال پر صبر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ صبر جیسی عظیم صفت سے متصف ہونا ہم سب کی چاہت ہے تاہم ہماری نظر میں آپ کو بطور خاص اس کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اجر کی امید رکھتے ہوئے صبر جیسی خوبصورت صفت کو اپنانے کی کوشش کریں گے، تو سر دست دل میں سکون اور راحت پیدا ہوگی جبکہ مستقبل میں یہ آپ کے لیے ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہوگا۔ مت بھولیے گا کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

قید کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو غور و فکر اور خود احتسابی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کیا کیا، کیا چھوڑا، کیا چھپایا اور کیا ظاہر کیا۔یہ وہ نعمت ہے جو دنیا میں آزاد شخص کو میسر نہیں ہوتی، کیونکہ اسے دنیا کی رنگینیاں غافل کر دیتی ہیں۔ سو آپ کے لیے اپنے اعمال کے محاسبے کا یہ ایک بہترین موقع ہے اور یہ عبادت بھی ہے۔یہی وہ موقع جس کو آپ اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ عوام کے سامنے تو آپ اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے تھے لیکن قید تنہائی میں اپنے خالق کے سامنے یہ اعتراف کرنے میں آپ کی اپنی ہی کامیابی ہے۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ قید انسان کو اپنی ذات کی تعمیر اور اپنے مستقبل کے تعین کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ اپنی زندگی کی از سر نو منصوبہ بندی کریں، ماضی کی ناکامیوں، غلطیوں سے سبق سیکھیں اور سچے دل سے توبہ کرکے ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔حکمرانی سے تو روکے گئے لیکن اپنی ذات کی تعمیر سے آپ کو کون روک سکتا ہے؟ سو اپنی زندگی کو ایک مثبت سمت دیں، ایک بامقصد اور تخلیقی انسان بننے کی کوشش کریں اور خود کو اچھے اخلاق اور اسلامی تعلیمات کے نور سے روشن کریں۔بعید نہیں کہ ایک دن کسی اہم مقام پر دوبارہ دیکھے جائیں۔چوتھا فائدہ یہ ہے کہ جیل نیکی کی دعوت دینے اور اصلاح کا بہترین میدان ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کا مسکن ہے جو زندگی میں کہیں نہ کہیںکوئی جرم کر بیٹھے تھے۔ یہ لوگ سب سے زیادہ کسی خیر خواہ کی نصیحت کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ اپنی مشکلات کا حل اور جیل کے اندھیروں سے آزادی کی روشنی کی طرف آنا چاہتے ہیں۔ان کے دلوں کو ملک اور ملک کے محافظوں کی نفرت سے بھرنے کی بجائے محبت سے بھریں، تخریب کی بجائے تعمیر پر توجہ دیں۔ یہ اپنی راہ سیدھی کرنے اور دوسروں کو سیدھی راہ دکھانے کا بہترین موقع ہے، اسے ضائع مت کیجیے۔
جناب ماہ مبارک کے آنے میں ایک دو دن باقی ہیں۔بندہ پریشان بھی ہو، اسیر بھی ہو اور وقت بھی مبارک ہو تو دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ اپنے ایک خیر خواہ کی طرف سے یہ گزارش نامہ قبول کرتے ہوئے اسے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے تو نوازش ہوگی۔ والسلام۔