ترکیہ میں جیل میں قید کرد عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے رہنما عبداللہ اوجلان نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔یہ اہم فیصلہ جمعرات کو اُس وقت ہوا جب کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے رہنما عبداللہ اوجلان سے کرد حامی ترک جماعت پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی(ڈی ای ایم پارٹی) کے ایک وفد نے جیل میں ملاقات کی۔
لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے الشرق الاوسط کے مطابق عبداللہ اوجلان نے وفد سے گفتگو میں بتایا کہ میں ہتھیار ڈالنے کی اپیل کررہا ہوں اور اس تاریخی ذمے داری کو قبول کرتا ہوں۔انہوں نے اپنی جماعت سے اپیل کی کہ وہ ایک اجلاس منعقد کرے اور باضابطہ طور پر تنظیم کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرے۔عرب میڈیا کے مطابق ترکیہ کی ڈی ای ایم پارٹی کے رہنماوں نے پریس کانفرنس میں عبداللہ اوجلان سے منسوب خط پڑھ کر سنایا، عبداللہ اوجلان نے خط میں لکھا کہ امن ہتھیار اٹھانے اور جنگ سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم امن و سلامتی کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔عبد اللہ اوجلان نے مزید کہا کہ کردوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جارہا تھا تو کردستان ورکرزپارٹی وجود میں آئی، چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے کردستان ورکرز پارٹی کا قیام ناگزیر تھا۔اپنے خط میں عبداللہ اوجلان نے کہا کہ تمام مسلح گروہوں کو ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔خیال رہے کہ عبد اللہ اوجلان 1999ء سے ترکیہ کی امرالی جیل میں قید ہیں۔
عبداللہ اوجلان ترکیہ سے تعلق رکھنے والے کرد راہنما ہیں۔ اوجلان کے معنی ترک زبان میں ’انتقام لینے والے‘ کے ہوتے ہیں۔ عبداللہ نے یہ لقب اُس وقت اپنایا جب انہوں نے ترکیہ میں کردوں کی پُرتشدد کارروائیوں کا آغاز کرنے کے لیے پی کے کے کی بنیاد رکھی۔ عبداللہ اوجلان نے 1978ءمیں کردستان ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1980ء میں وہ شام منتقل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شام میں حافظ الاسد کی حکومت تھی اور وہ ترکیہ کے خلاف کرد مزاحمت کو سپورٹ کررہے تھے۔
اوجلان کو حافظ الاسد نے لبنان کے سہل البقاع نامی علاقے میں تربیتی مراکز بناکر دے دیے تاکہ کرد عسکریت پسند یہاں تربیت حاصل کریں۔ اس زمانے میں لبنان شام کے زیراثر تھا۔ 1984ء میں پی کے کے نے ایران اور ترکیہ میں بیک وقت کرد ریاست کے قیام کے لیے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ عبداللہ اوجلان کی کارروائیوں سے ترکی کو بہت نقصان ہوا جس پر ترکی نے ان کی گرفتاری کے لیے اقدامات تیز کئے۔ اس دوران اوجلان نے یورپ میں سیاسی پناہ کے حصول کی کوششیں تیز کیں اور شام سے نکل کر وہ کینیا پہنچا، جہاں 15 فروری 1995ء کو ترک انٹیلی جنس نے انہیں حراست میں لیکر خصوصی طیارے کے ذریعے ترکی پہنچا دیا۔
انہیں ترکیہ میں پہلے پھانسی کی سزا سنائی گئی تاہم 2002ء میں ترکیہ میں پھانسی کی سزا ختم ہوئی تو ان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوگئی۔ عرب میڈیا کے مطابق پی کے کے پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہنے والی سب سے زیادہ طویل عرصے تک کام کرنے والے والی پارٹی ہے، جس کی کارروائیوں میں اب تک 40 ہزار انسان مارے گئے ہیں۔ اس وجہ سے واشنگٹن، ترکیہ اور یورپی یونین میں یہ دہشت گرد پارٹی کے طور پر درج ہے۔ خیال رہے کہ عبداللہ اوجلان اس سے قبل بھی دو مرتبہ ہتھیار ڈالنے کی بات کرچکے ہیں۔ آخری مرتبہ انہوں نے 2013ء میں بھی اس نوعیت کا اعلان کیا تھا جس کے باعث ان کے اس حالیہ اعلان کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس حوالے سے کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ تاہم ترکیہ کی حکمران جماعت کے رکن پارلیمان افکان علاءنے کہاہے کہ اس بیان میں اصل بات ہتھیار ڈالنے اور پی کے کے کی تحلیل ہے، تاہم ہم نتائج کو دیکھیں گے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
شام میں سرگرم کرد ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے سربراہ مظلوم عبدی نے بتایا کہ عبداللہ اوجلان کے بیان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ شامی کرد ڈیموکریٹک فورسز اپنا کام جاری رکھیں گی۔ مظلوم عبدی نے بتایا کہ عبداللہ اوجلان نے انہیں خط بھیجا تھا جس میں اسلحہ ڈالنے اور پُرامن تحریک چلانے کی بات کی گئی تھی۔ عراقی کردستان کی صدارتی پارٹی کے ذمہ دار نیجرفان بارزانی نے ایکس پر بتایا کہ ہم عبداللہ اوجلان کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ پی کے کے ہتھیار ڈال کر پُرامن حل کےلئے جدو جہد شروع کرے گی۔ خیال رہے کہ شام کے چار صوبوں حلب، الحسکہ، دیرالزور اور الرقہ میں کرد ڈیموکریٹک فورسز کے گروپس قسد کے نام وائی پی جی اور وائی پی جے کے ناموں سے سرگرم ہیں۔ اکتوبر 2015ء میں بننے والی قسد اب شام کے تیل کے ذخائر پر قابض ہے جبکہ مذکورہ صوبوں میں ان مسلح کرد گروپوں کی عملداری قائم ہے۔ ترکی ان کرد گروپوں کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) ہی کا حصہ قرار دےتا رہاہے اور اس کے خلاف متعدد آپریشن کرچکا ہے۔
دمشق میں آٹھ دسمبر کے بعد بننے والی احمدالشرع کی حکومت بھی کرد ڈیموکریٹک فورسز کی سرگرمیوں کی مخالف ہے اور اس نے متعدد بار مذاکرات کرکے کرد مسلح گروپس کو تحلیل کرکے شام کی مشترکہ فوج میں ضم ہونے کی دعوت دی ہے، جسے کرد مسترد کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عبداللہ اوجلان کی پی کے کے ہتھیار ڈالتی ہے تو ترکیہ سمیت شام کے لیے کافی آسانی پیدا ہوسکتی ہے، کیونکہ پی کے کے کے اثرات چاروں ممالک ترکیہ، ایران، شام اور عراق میں پھیلے ہوئے ہیں۔ عرب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عبداللہ اوجلان کی یہ اپیل ترکیہ میں 46 سالہ تنازعے کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے اور خطے میں سیاسی و سلامتی کے لحاظ سے دُوررس نتائج مرتب کرسکتی ہے۔