گلوبل وارمنگ: رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنایا اور اس کے حسن و جمال اور خوبصورتی میں اضافے کے لیے مختلف درختوں، پھولوں اور پودوں سے سجایا، تاکہ انسان پُرفضا ماحول میں سانس لے سکے۔ اس وقت پوری دنیا گلوبل وارمنگ کی لپیٹ میں ہے۔

اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو
گلوبل وارمنگ سے مراد زمین کی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں طویل مدتی اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ درجہ حرارت زیادہ مقدار میں پیدا ہونے والے گرین ہاوس گیسوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گرین ہاوس گیسیں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)، میتھین (CH4) اور نائٹرس آکسائیڈ (N2O) کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھاتی ہیں۔ اس کے ماحولیاتی نظام اور انسانی معاشرے پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال (2024ء) کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اس کی علامت ہے کہ دنیا گلوبل وارمنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جارہی ہے، جس میں درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زمین پر حدت میں اضافہ گرمی، بدترین سیلاب، ہیٹ ویو اور طوفانوں کے ساتھ سمندر کی سطح میں اضافے سے، جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کے معدومیت کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
گلوبل وارمنگ سے مراد انسانی تجربات کے باعث قدرتی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں، گرین ہاس افیکٹ میں اضافہ ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ”جوہری بم“ سے بھی کئی گنا خطرناک ”گلوبل وارمنگ“ کا بم ہے جس کے اثرات سے کرہ ارض خطرات میں گھرا ہوا ہے۔فوسل فیولز جیسے کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس جلانا گلوبل وارمنگ کا بنیادی محرک ہیں۔ جب یہ ایندھن جلائے جائیں تو یہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار چھوڑتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور زمین کے استعمال میں ہونے والی دیگر تبدیلیاں بھی درختوں اور مٹی میں ذخیرہ شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چھوڑ کر گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈالتی ہیں۔ اسی طرح صنعتی عمل اور زرعی طریقوں سے میتھین اور نائٹرس آکسائیڈز طاقتور گرین ہاوس گیسیں ہیں۔ گلوبل وارمنگ، شدید گرمی کی لہروں کا باعث بن کر جان لیوا ہو جاتی ہے، خصوصا بوڑھوں خواتین اور چھوٹے بچوں کے لیے۔ گلوبل وارمنگ سے گزشتہ سال یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں
بادلوں نے کہاں برسنا ہے
گرمی شدت کی تو پڑے گی اب
ڈبلیو ایچ او کے مطابق صحت پر تباہ کن اثرات اور لاکھوں اموات روکنے کے لیے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف تک محدود رکھا جانا چاہیے، جبکہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس صدی میں درجہ حرارت 2.9 سینٹی گریڈ تک ہو سکتا ہے۔ سمندری درجہ حرارت میں اضافے سے نا صرف بحر اوقیانوس میں طاقتور طوفانوں کی تعداد بڑھی بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل وارمنگ آبی گزرگاہوں کو خشک اور جنگلات میں نمی ختم کررہی ہے۔ اس سے امریکا، کینیڈا سے لے کر جنوبی یورپ اور روس تک جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کی 20 فیصد آکسیجن کا ذریعہ جنگلات ہیں۔ کسی بھی ملک کے کل رقبے کے 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صرف 4 فیصد ہی جنگلات ہیں جو انتہائی کم اور قابل تشویش ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 43000 ہیکٹرز پر کھڑے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے
اجڑ کتنے گئے ہیں جانے مسکن
ہوا اشجار کا قتل اجتماعی
محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی بڑھا تو گرمی انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں، جیسے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، مون سون کی تبدیلی، گلیشیئرزکا پگھلنا اور موسمی نظام میں تبدیلیاں یہ وہ اثرات ہیں جنھوں نے پاکستان کو حالیہ برسوں میں بدلتے ہوئے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس سال بارشوں کے لیے آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہے
بارشوں کو تو اب ترسنا ہے
پودا اِک بھی نہ لگ سکا ہم سے
2022ء میں پاکستان میں موسلادھار بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہوا ،جس سے انسانی جانوں، املاک اور زراعت کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ لگ بھگ 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ مجموعی طور پر، 7.9 ملین لوگ بے گھر ہوئے، 664,000 افراد ریلیف کیمپوں اور غیررسمی مقامات پر منتقل ہوئے۔ مزید یہ کہ 30,000 سے زیادہ اسکولوں اور 2,000 صحت کے مراکز کو نقصان پہنچا۔ گلوبل وارمنگ کے حیاتیاتی تنوع پر بھی اہم مضمرات ہیں۔ بہت سی انواع تیزی سے بدلتے ماحولیاتی حالات کے مطابق ڈھلنے سے قاصر ہیں اور ان کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کے انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہوتے اور گرمی سے متعلق بیماریوں اور اموات کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ فضائی آلودگی سانس کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے جیسا کہ دمہ، ملیریا اور ڈینگی بخار جیسی بیماریوں کا پھیلاو۔ اگر گلوبل وارمنگ سے درپیش چیلنجز نمایاں ہیں تو مثبت تبدیلی کے مواقع بھی ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی (سولرپلیٹ) اور ہوا (ونڈپاور) سے بجلی کا حصول گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کم کرسکتا ہے۔ توانائی کی بچت کے اقدامات میں سرمایہ کاری سے گلوبل وارمنگ کے اثرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں ماحولیاتی نظام کی حفاظت اور بحالی جیسے شجرکاری اور گیلی زمینیں کاربن کو الگ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے مجموعی اثرات کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
اسلام دین فطرت ہے۔ وہ گلوبل وارمنگ کے خاتمے کے لیے درخت اور پودے لگانے کا حکم دیتا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے نجات زیادہ سے زیادہ درخت لگانے میں ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ہماری زندگیوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ فرمان نبوی کے مطابق درخت اور پودے لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی پودا لگائے یا بیج بوئے اس میں سے انسان، جانور یا پرندے کھائیں تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ جو شخص کوئی درخت یا پودا لگاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس درخت سے حاصل ہونے والے پھل کی مقدار کے برابر اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتا ہے۔ درخت لگانے اور مختلف قسم کے پھول اگانے سے ہمارے اِردگرد کا ماحول اور چاروں طرف زمین سرسبز و شاداب نظر آتی ہے، جسے دیکھ کر انسانی طبیعت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔

گرمیوں میں درخت گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے سورج کی شعاعوں اور فضا سے خطرناک گیسز کو اپنے اندر جذب کر کے انسان کو صاف ستھرے ماحول میں سانس لینے کے لیے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ مستقبل میں گلوبل وارمنگ سے بچنے اور آنے والی نسل کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہوں گے۔ اگر گھر میں گملوں میں پودے لگائے جائیں تو یہ انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ہمارے ذہنی دباو کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے افراد، کاروباری اداروں اور حکومتوں کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔
پاکستان نے بھی پیرس معاہدے کے تحت گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچنے کے لیے کئی تحریری وعدے کیے ہیں، جن میں 2030ء تک مضر گیسوں کے اخراج میں 50 فیصد تک کمی شامل ہے۔ 15 فیصد کمی پاکستان نے اپنے وسائل سے اور 35 فیصد کمی بیرونی امداد سے مشروط کر رکھی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر جو کسی بھی ملک و قوم کے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے اور اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جدید توانائی کے ذریعے مسابقت بڑھاتے ہوئے میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گلوبل وارمنگ کے بارے میں آگاہی دینی ہوگی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بھر کو درپیش اس خطرے کا تمسخر اُڑا رہے ہیں
یاد رکھنا یہ بھول جانا مت
تم نے اشجار کاٹ ڈالے سب