تیسری اور آخری قسط:
ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریے سے متفق ہیں۔ پھریہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی کہاں کہاں سے لے کر آتے ہیں!؟ یعنی اس معاملے میں وہ مقدس کتابوں تک کو بھی نہیں بخشتے۔
ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریے کی تشہیر ہوتی رہی۔ اس پر ایمان رکھنا تب زمانے کے فیشن میں داخل ہوگیا تھا۔ ا س دور کے دانشور اور علما و فضلا، ڈارون کی عجیب تحقیق پر جیسے جھوم جھوم کے رہ گئے تھے۔ اپنی اصل الٰہی تخلیق، حضرت آدم و حوا کی نسل ہونے کو چھوڑ کر انہوں نے خود کو بآسانی ایک کمتر مخلوق بن مانسوں کی اولاد قرار دے لیا تھا۔
اگرچہ اس نظریے کی رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظرِعام پر آرہی ہیں، لیکن کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کے ایک دو پہلو ﺅں کا ہم خود بھی جائزہ لے لیں۔ اس دریافت پر سائنسدان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں بھی شامل کروایا۔ کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچہ کم ازکم بھی پانچ لاکھ سال پرانا ہے۔ مزید کہا گیا کہ یہ ڈھانچہ کسی یورپی فرد کا ہے جبکہ بعض اخبارات نے حسبِ دستور اسے کسی عورت کا ڈھانچہ گردانا۔ اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس درجے پُرمسرت تھے کہ اس پر کم ازکم پانچ سو مقالے لکھے گئے اور چالیس سالوں تک اسی کو تمام تر اہمیت دی جاتی رہی۔ حد یہ ہے کہ ایچ جی ویلز اور برٹرینڈ رسل جیسے معروف دانشور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی کتابوں بالترتیب The Outline of History اور A History of Western Philosophy میںاسے انسان کی جدید علمی فتوحات میں شمار کیا۔ تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکہ بہرحال دھوکہ ہی ہوتا ہے اور حقائق بہرحال اپنا آپ منوا کر رہتے ہیں۔
چنانچہ چالیس سالوں کے بعد میں جاکر کہیں پتا لگا کہ اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد ہے اور یہ کوئی سائنسی تحقیق نہیں ہے۔ (کولیئرز انسائیکلو پیڈیا) جب برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley نے میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتہ لگا کہ اس کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے، وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ اس نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چمپینزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ اس طرح ایک نئی انسان نما بندر شکل سامنے آ سکے۔ اس نئے انکشاف نے تو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی۔ کس کو پتہ تھا کہ عظیم سائنس دان ڈارون کا نظریہ یوں بالکل تارتار ہوجائے گا۔ بہرحال بہت چھان پھٹک کے بعد آخرکار واضح طور پر اعلان کردیا گیا کہ دریافت شدہ ڈھانچہ سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ جدید ماہرین نے واضح کیا کہ مذکورہ شکل و صورت میں بعض جعلسازیاں کی گئی ہیں اور ڈھانچے کو انسان کی شکل میں ڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ نیز یہ کہ چیمپانزی کا جبڑا وغیرہ بھی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے۔ انکشاف کے نتیجے سے جو ہلچل مچی اس کے بعد سے پلٹ ڈاﺅن کا وہ ڈھانچہ برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں چالیس سالوں سے وہ مسلسل دنیا کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا۔
ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی وسائنسی فضا میں آج سے سو سالوں تک محض اس لئے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں، نازک ترین تحقیقاتی آلات، خورد بین ودوربین، تشخیصی سہولتیں، سائنسی علوم اور غور و فکر کی صلاحیتیں وغیرہ، ہمہ معیاری اور با اعتماد حد تک سامنے نہیں آ سکی تھں۔ لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا، ڈارون کے نظریات اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے۔ حقائق اور تہہ تک پہنچنے والے علم کی آج کی یہ دنیا نہ تو چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کو اصولی طورپردرست مانتی ہے اور نہ چارلس ڈاسن کے خود ساختہ پِلٹ ڈاﺅن مین کو کوئی اہمیت دینے کو تیا ر ہے۔ کل کا دھوم مچادینے والا پِلٹ ڈاﺅن مین آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا ہے۔ڈارون کی حالات ِزندگی لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اپنے آخری دور میں وہ اس عقیدے کا قائل ہوگیا تھا کہ خدا ہی تمام قوانین کا مآخذ نہیں ہے۔
تازہ ترین خبر کے مطابق ایتھوپیا میں چند انسانی باقیا ت ملی ہیں جن کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ یہ باقیات لاکھوں سال پرانی ہوسکتی ہیں۔ اس سے پہلے میںبھی یہاں سے ایک زنانہ فوسل ملا تھاجسے امریکی شہر کلیو لینڈ کے محققین نے لوسی کانام دیا تھااور بندر کی شکل سے ملتی جلتی اس فوسل کو ایک عرصے تک انسانوں کی ماں قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اب وہی محققین کہہ رہے ہیں کہ لوسی اور حالیہ دریافت شدہ ان باقیات میں بھی کوئی مماثلت نہیں ہے۔ (جنگ کراچی) مطلب یہ ہے کہ موجودہ دور کی انسانی باقیات اور اس دور کی لوسی میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اسے غلط طور پر انسانوں کی ماں قرار دیا گیا تھا۔ انسائی کلوپیڈیاز بتاتے ہیں کہ سائنسدان اسی قسم کی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ انسان کسی بھی لحاظ سے بن مانسوں کی ترقی یافتہ شکل نہیں ہے۔