مصر نے غزہ کا انتظام سنبھالنے کی اسرائیلی پیشکش مسترد کردی (علی ہلال)

مصر نے اسرائیلی اپوزیشن لیڈر کی اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے جس میں انہوں نے قاہرہ کو کہا تھا کہ اگر مصر پندرہ سال کے لیے غزہ کی پٹی کے انتظامات سنبھالنے پر آمادہ ہو تو مصر کے 155 ارب ڈالر کے قرضے ختم کئے جائیں گے۔

یاد رہے کہ ماضی میں مصر 1948ء سے 1967ء کے درمیان زیادہ عرصے غزہ کی پٹی کا قانونی ذمے دار رہاہے۔ تاہم 1967ء کی جنگ کے بعد مصر نے غزہ کے انتظامات چھوڑدیے تھے۔ اسرائیل ایک مرتبہ پھر اس حوالے سے سرگرم ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب عرب ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کے فلسطینیوں کی بے دخلی اور پٹی پر قبضے کی دھمکی مسترد کی تو اس کے بعد غزہ کے حوالے سے مزید تجاویز سامنے آنے لگیں۔ اسرائیلی اداروں کو خدشہ ہے کہ امریکی صدر عرب ممالک کی جانب سے سامنے آنے والے دباو کے بعد سے خاموش ہوگئے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے ایک بیان یہ بھی آیا ہے کہ غزہ کی پٹی کو خالی کروانے کا ان کا بیان کوئی زیادہ سنجیدہ نہیں تھا۔ اسرائیلی اداروں کو اس بیان سے خاصی مایوسی ہوئی ہے جس کا اظہار عبرانی میڈیا کررہا ہے۔
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم یائر لبید نے کہا تھا کہ حل یہ ہے کہ مصر آٹھ برس کے لیے غزہ کی پٹی کے انتظامی اُمور سنبھال لے۔ اس مدت کو 15 برس تک بڑھانے کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔واشنگٹن میں ایک تحقیقی مرکز کے سیمینار میں لبید نے مزید کہا کہ ’اسی دوران میں عالمی برادری اور علاقائی اتحادیوں کی جانب سے (مصر کا) بیرونی قرضہ ادا کر دیا جائے گا‘۔ العربیہ کے مطابق ہائیر لبید کی تجویز میں یہ بات شامل ہے کہ مصر اس ’امن فورس‘ کی قیادت کرے، جس میں عالمی برادری اور عرب ممالک بھی شامل ہوں۔ اس کا مقصد 15 ماہ سے زیادہ کی جنگ کے بعد تباہ حال غزہ کی پٹی کو چلانا اور اس کی تعمیر نو ہوگا۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر کے مطابق: اس عرصے کے دوران میں خود مختار انتظامیہ کے لیے حالات ساز گار بنائے جائیں گے اور غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کارروائی انجام دی جائے گی۔ بعد ازاں لیپڈ نے’ایکس‘ پلیٹ فارم پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’میں نے واشنگٹن میں غزہ کی جنگ میں اگلے مرحلے کے لیے پلان پیش کر دیا۔ مصر 15 برس کے لیے غزہ کی پٹی کے انتظامی امور سنبھالے اور عالمی برادری اس کا 155 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ پورا کر دے۔‘
سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’لڑائی کا تقریباً ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد دنیا حیران ہے کہ حماس ابھی تک غزہ پر کنٹرول رکھتی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت میں کسی نے بھی حقیقی متبادل پیش نہیں کیا‘۔ لیپڈ کے مطابق غزہ کے ساتھ اسرائیلی کی جنوبی سرحد کو دو مرکزی مشکلات کا سامنا ہے جو اسرائیل اور پورے خطے کی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ پہلی مشکل یہ کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے اقتدار میں رہنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا اور فلسطینی اتھارٹی غزہ چلانے کی قدرت نہیں رکھتی، لہٰذا انارکی کا جاری رہنا اسرائیلی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ مصری معیشت ڈھیر ہونے کے قریب ہے۔

یہ مصر اور پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ یقینا 155 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ مصر کو اس کی معیشت دوبارہ بنانے اور فوج کو مضبوط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسری جانب مصر نے مستقبل میں غزہ کی پٹی کے انتظامی اُمور چلانے کے حوالے سے کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ مصر نے باور کرایا ہے کہ غزہ کو فلسطینی ہی چلائیں گے۔ مصر نے اہل غزہ کی ہجرت کے بغیر اس کی تعمیرنو پر زور دیا ہے۔ مصر کے مشہور صحافی اور اینکر احمدموسیٰ نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ مصر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرے گا اور اس سلسلے میں تعاون بھی جاری رکھے گا، لیکن غزہ کی پٹی کے انتظامات سنبھالنے کا کام مصر کرے گا اور نہ ہی مصر اس کو برداشت کرسکتا ہے۔
مصر کے عسکری تجزیہ کار اور ریٹائرڈ میجر جنرل سمیت فرج نے بتایا کہ اسرائیل مصر کو غزہ کی پٹی میں پھنسانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی پر تسلط جمانے کے اپنے منصوبے میں ناکامی سے دوچار ہوا اور غزہ کی مقاومتی تنظیموں سے اسلحہ لینے میں بھی اسے ناکامی ہوئی ہے۔ اب اسرائیل یہ کام مصر کے ذریعے کروانا چاہتاہے۔ تاہم مصر ایسا نہیں کرے گا۔ اسرائیل کا حقیقی ہدف مصر کے ذریعے غزہ کی پٹی کو ہتھیاروں سے خالی کروانا ہے۔ اسرائیل اپنی ناکامی مصر کے ذریعے کامیابی میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن مصر ایک آزاد ملک ہے اور اس پر اس حوالے سے کسی قسم کا دباو ممکن نہیں ہے۔ مصری میڈیا کے مطابق اسرائیل مصر کے کمزور اقتصادی حالات اور معاشی بحران کی آڑ میں مختلف طریقوں سے بلیک میل کررہا ہے، جس میں گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے مصر کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافے کی اسرائیلی کوشش ہے، جس سے مصر نے متبادل ذرائع پر سوچنا شروع کردیا ہے۔
خیال رہے کہ مصر نے 2020ء میں اسرائیل سے ایل پی جی کی درآمد گی کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ مصر اور اسرائیل کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے روسے امن معاہدے کا حصہ ہیں تاہم غزہ جنگ کے دوران جب اسرائیل نے رفح کراسنگ اور فلاڈلفیا کوریڈور پر قبضہ کیا تو مصر نے مئی 2024ءمیں اسرائیل کو امن معاہدہ توڑنے کی دھمکی دی جس پر امریکا نے مداخلت کرتے ہوئے مصر کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل عنقریب علاقے سے فوجی انخلاءکردے گا۔ اسرائیل اس ممکنہ فوجی انخلاءکے بعد غزہ کی پٹی کو دوبارہ حماس کے حوالے کرنے سے خوفزدہ ہے جس کے باعث اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی کے انتظامات سنبھالنے کی پیشکش کی ہے۔تاہم مصر اس مرتبہ عرب ممالک کے مشترکہ موقف کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔