اکیسویں صدی اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

اکیسویں صدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ”گلوبلائزیشن” کی صدی ہے، فاصلے سمٹ رہے ہیں اور دوریاں ختم ہو رہی ہیں۔ فون اور انٹرنیٹ کے باعث آج یہ کیفیت ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک کنارے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے کہیں تھوڑے وقت میں دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں رابطہ ہو جاتا ہے، گفتگو ہو جاتی ہے، تحریروں کا تبادلہ ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس لیے اب دنیا ایک محلے کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، علاقائی تہذیبیں اور کلچر دم توڑ رہے ہیں، روایات و اقدار آپس میں گڈمڈ ہو رہی ہیں اور ایک مشترکہ اور مخلوط کلچر وجود میں آرہا ہے جو پوری نسل انسانی کا اجتماعی کلچر ہوگا اور ساری دنیا ایک مشترکہ سوسائٹی کی شکل اختیار کر جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ”گلوبلائزڈ کلچر” کی تشکیل میں نسل انسانی کی فکری راہنمائی اور علمی قیادت کون کرے گا؟ اس وقت دنیا میں جو نظام عملاً رائج ہیں ان میں سے کسی میں اتنی سکت نہیں رہی اور جن فلسفوں کی آج دنیا کے مختلف حصوں میں حکمرانی ہے ان میں سے کوئی اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کا اہل نہیں ہے۔

اس لیے آج کا دانشور ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کی طرف دیکھ رہا ہے، وحیٔ الٰہی کی پناہ گاہ کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے اور دنیا کی اعلیٰ دانش گاہوں میں اس پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ انسان کی اپنی عقل و دانش خواہ وہ شخصی ہو، طبقاتی ہو، یا اجتماعی، نسل انسانی کی مشکلات حل کرنے میں کامیاب نہیں رہی اور اس کی ہر کوشش نے مسائل و مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے، ان میں کمی کسی درجہ میں واقع نہیں ہوئی۔ اس لیے آسمانی تعلیمات کی طرف ایک بار پھر رجوع کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا۔ چنانچہ اکیسویں صدی جہاں گلوبلائزیشن کی صدی ہے وہاں آسمانی تعلیمات کی طرف نسلِ انسانی کی واپسی کی صدی بھی ہے اور اس حوالہ سے اب ہم علمائے اسلام کی ذمہ داریوں پر ایک نظر ڈالنا چاہیں گے۔

اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس میں علاقائی تہذیبیں اور کلچر آپس میں گڈمڈ ہو رہے ہیں اور ایک مشترک عالمی کلچر تشکیل پا رہا ہے، اور اس عالمی کلچر کی بنیاد کے طور پر انسانی عقل اور اس کے تخلیق کردہ تمام فلسفے اور نظام ہائے حیات بے کار ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لیے اہل دانش کو ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات صرف ایک مذہب کے پاس اصلی اور محفوظ حالت میں موجود ہیں اور وہ اسلام ہے۔ باقی کسی مذہب کے دعوے دار اپنی تعلیمات کو اس طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے پاس اس وقت جو مذہبی تعلیمات موجود ہیں وہ فی الواقع وہی ہیں جو ان کے پیغمبر پر وحی الٰہی کی صورت میں نازل ہوئی تھیں اور نہ ہی کسی مذہب کے پیروکار یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وحی الٰہی کی تشریح میں ان کے پیغمبر نے جو تعلیمات دی ہیں کم از کم وہی ان کے پاس اصل اور محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ یہ اعزاز صرف اور صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والی وحی (قرآن کریم) اور اس کی تشریح میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات (سیرت و سنت) ان کے پاس اصل حالت میں موجود ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ کا ایسا حصہ ہیں جس سے دنیا کا کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے ان حقائق کی بنیاد پر جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسیوں صدی آسمانی تعلیمات کی طرف نسل انسانی کی واپسی کی صدی ہے وہاں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والی صدی اسلام کی طرف نسلِ انسانی کی واپسی کی صدی ہے اور اگلی صدی جسے آپ پندرہویں ہجری صدی کہہ لیں یا اکیسویں صدی کے نام سے یاد کر لیں اسلام کے غلبہ اور عالمگیر نفاذ کی صدی ہے۔

مگر اس حوالہ سے علمائے اسلام کا کردار کیا ہے؟ اس کے بارے میں دو گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے:
ایک یہ کہ انسانی اجتماعیت اور سوسائٹی کے مسائل کے ضمن میں قرآن و سنت کی راہنمائی کے پہلوؤں سے ہم خود بے خبر ہیں تو نسلِ انسانی کی راہنمائی کیا کریں گے؟ میں اپنے ماحول کی بات کر رہا ہوں اور مجھے اس گستاخی پر معاف فرمائیں کہ ہمارے علمائے کرام کی اٹھانوے فیصد اکثریت اسلام کے اجتماعی کردار اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے اور انتہائے ستم یہ ہے کہ اپنی اس بے خبری سے بھی اسے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ ہم دنیا بھر میں اسلام اسلام کا نعرہ لگا رہے ہیں، اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کفر کو للکار رہے ہیں او رشریعت کا پرچم ہاتھ میں لیے معرکہ آرائی کے لیے تیار کھڑے ہیں مگر اسلام جب نافذ ہوگا تو کون سی چیز نافذ ہوگی، کہاں نافذ ہوگی اور کیسے نافذ ہوگی، اس کا ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اپنے ملک اور دنیا کے مروجہ نظام اور تہذیب و اقدار میں کہاں کہاں اور کون کون سی تبدیلی واقع ہوگی، اس سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں بس اسلام چاہیے اور صرف اسلام چاہیے اس کے علاوہ ہم کوئی بات نہیں جانتے۔

اس طرزِ عمل کے بارے میں ایک قصہ اکثر سنایا کرتا ہوں، آج بھی عرض کر دیتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک خان صاحب (پٹھان بھائی ناراض نہ ہوں، میں خود بھی پٹھان ہوں) راستے میں جا رہے تھے کہ انہیں سامنے سے ایک ہندو لالہ آتا دکھائی دیا۔ خان صاحب ایک کافر کو دیکھ کر غصے میں آگئے، جی میں آیا کہ اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنا چاہیے۔ ہندو قریب آیا تو خان صاحب نے اسے گریبان سے پکڑا اور ایک ہاتھ سے خنجر نکال کر اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا ”کاپر کا بچہ! کلمہ پڑھتے ہو یا نہیں؟” ہندو نے دیکھا کہ خان صاحب کے ہاتھ میں خنجر ہے اور آنکھوں میں خون اتر آیا ہے، وہ ڈر گیا او رکہا خان صاحب ٹھیک ہے مجھے کلمہ پڑھاؤ میں پڑھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس پر خان صاحب پہلے سے زیادہ غضبناک لہجے میں بولے”کاپر کا بچہ! خود کلمہ پڑھو، آتا مجھے بھی نہیں ہے۔”
اس وقت ہماری حالت بھی یہی ہے۔ ہم پوری دنیا سے کلمہ پڑھوانا چاہتے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ و غلبہ کے لیے مضطرب ہیں لیکن جب ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اچھا بتاؤ اسلام کیا ہے اور اس کا اجتماعی نظام کیا ہے تو ہمارے غیظ و غضب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ”آتا مجھے بھی نہیں ہے” کی مجسم کیفیت کے ساتھ ”اسلام اسلام” کا نعرہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے اور ہمیں اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

اسلام کی اجتماعی تعلیمات قرآن کریم میں جابجا موجود ہیں، حدیث اور فقہ کی کم و بیش سبھی کتابوں میں اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق الگ الگ ابواب موجود ہیں جن میں اس شعبہ زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں پڑھا جائے، سمجھا جائے اور ان کا مطالعہ کر کے انہی شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں آج کے مروجہ قوانین و روایات سے ان کا تقابل کیا جائے۔ ان میں پائے جانے والے فرق اور تضادات کی نشاندہی کی جائے اور اسلامی تعلیمات و احکام کی افادیت اور فوقیت کو واضح کیا جائے۔ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا ہے اور وہی اسے صحیح طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ آگے آئیں گے، خلا تو نہیں رہے گا کہ یہ فطرت اور تاریخ کے عمل کے خلاف ہے۔ لیکن جب دوسرے لوگ آگے آ کر اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے اور خود علمائے کرام کو شکایات ہوں گی۔ اس لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ دوسروں کے شکوے کرنے کی بجائے علمائے کرام خود اس کام کو سنبھالیں اور کوئی ایسا خلا ہی نہ رہنے دیں جسے پر کرنے کے لیے دوسروں کو آگے آنے کا موقع مل سکے۔
دوسری بات اس ضمن میں علمائے اسلام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کی دنیا کو اسلام سمجھنے کے لیے اپنی روایتی زبان پر نظر ثانی کریں۔ ہماری روایتی زبان مناظرہ، فتویٰ اور حکم کی زبان ہے جو آج کے دور میں متروک ہو چکی ہے، وہ کارآمد نہیں ہے بلکہ نقصان دہ ہے۔ آج کی زبان منطق و استدلال اور حکمت و فلسفہ کی زبان ہے۔ وہ زبان ہے جو لوگوں کو اسلام سمجھانے کے لیے امام غزالی اور امام ولی اللہ دہلوی نے استعمال کی ہے۔ چند برس پہلے کی بات ہے کہ ہم نے لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام میڈیا پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مہمان خصوصی ایک نومسلم نوجوان دانشور یحییٰ برٹ تھے۔ وہ ایک اونچے درجے کے انگریز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد ”بی بی سی” کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں اور والدہ ”انڈی پینڈینٹ” کی ایڈیٹر ہیں۔ اس نوجوان نے اسلام قبول کیا اور جیسا کہ ان لوگوں کا مزاج ہے کہ اس نے اسلام کو سمجھنے کے لیے خوب مطالعہ کیا، مختلف اسلامی تحریکات پر اسٹڈی کی حتیٰ کہ برصغیر پاک و ہند میں کئی ماہ رہ کر یہاں کی اسلامی تحریکات کا جائزہ لیا۔ اس نے مذکورہ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مغرب کو اسلام کی دعوت دینا چاہتے ہیں اور اس خطہ کے لوگوں کو اسلام سمجھانا چاہتے ہیں تو شاہ ولی اللہ کی زبان میں بات کریں، یہ صرف اسی زبان سے اسلام کو سمجھ سکیں گے۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور زبان سے ان سے بات کی گئی تو یہ بات کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

شاہ ولی اللہ کی زبان کیا ہے؟ حکمت و دانش اور منطق و استدلال کی زبان ہے اور کوئی بات دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے کی بجائے انہیں سمجھا کر قائل کرنے کی زبان ہے۔ آج اسی زبان کی ضرورت ہے، ہمارے علماء کو یہ زبان سیکھنی چاہیے اور اس پر عبور حاصل کرنا چاہیے۔ یہی اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہی اس حوالہ سے علمائے اسلام کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔