چند دن پہلے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ تھا۔ اس سے پہلے لاہور کے مشہور ایکسپو سنٹر میں سالانہ کتاب میلہ بھی ہوا۔ یہ دونوں بڑے ایونٹ تھے جن میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے، بے شمار کتابیں فروخت ہوئیں۔
پنجاب یونیورسٹی والوں نے ایک انتظام کیا کہ باہر نکلنے والے راستے پر آدمی بٹھا دیے جو کتابیں لے جانے والوں سے پوچھتے تھے کہ آپ نے کتنی کتابیں خریدیں۔ سو فی صد لوگوں سے نہیں پوچھ پائے ہوں گے، کیونکہ بہت زیادہ لوگ تھے اور کچھ لوگ رک کر بتانے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق تین روزہ کتاب میلہ میں پونے دو لاکھ سے زیادہ کتابیں فروخت کی گئیں۔ میرے اپنے اندازے کے مطابق یہ تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہوگی۔
یہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ صرف دو ہفتے قبل ایکسپو سنٹر کے عظیم الشان ہال میں بہت بڑا کتاب میلہ ہوچکا تھا۔ اتنے کم وقفے سے دوسرا کتاب میلہ ایک ہی شہر میں نہیں لگنا چاہیے تھا، مگر شاید رمضان کے باعث ایسا کر لیا گیا، ورنہ یہ ایونٹ مارچ کے اینڈ میں ہوتا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ کتابیں اب کوئی نہیں پڑھتا یا کتاب لکھنے چھپوانے کا کیا فائدہ وغیرہ وغیرہ، انہیں ایسے کتاب میلوں میں آنا چاہیے۔ اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس میں شریک تھی اور وہ اپنے پاس کتابوں کی فہرست لے کر آئے تھے۔ نوجوان اگر کتاب سے جڑتے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کتاب کا مستقبل خوشگوار ہے۔
ایکسپو سنٹر کے کتاب میلہ میں بہت سے نوجوان ملے، بعض کتابوں پر دستخط کرانے کے خواہش مند ہوتے ہیں، کچھ سیلفی بنوانے کے تو بہت سے ایسے بھی تھے جن کا پوچھنا تھا کہ ہمیں وہ کتابیں بتائیں جو پڑھنا ضروری ہے۔
میں تو ایک کم علم، عام صحافی ہوں، صاحب علم لوگوں کو ایسی فہرست بنانی چاہیے، بعض لوگوں نے مرتب کی بھی ہیں۔ گوگل کرنے سے شاید مل جائے۔ اردو کے دس بہترین ناولوں کی فہرست بھی کئی ادیبوں نے مرتب کی ہے۔ اس پر اتفاق اختلاف کی بحث بھی چلتی رہتی ہے۔ میرے ساتھ یہ بھی ہوا کہ چونکہ ایک چھوٹے دروافتادہ شہر سے تھا تو کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں ملا۔ اپنے طور پر جو سمجھ آئی، جو کتاب ہاتھ لگی اسے پڑھتے گئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے شہر میں بلدیہ کی لائبریری تھی جہاں سے بہت سی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں، پھر کالج، یونیورسٹی کی لائبریریاں مل گئیں۔ رہنمائی کا مگر یہ فائدہ ہے کہ توانائی درست سمت میں خرچ ہوتی ہے اور آدمی وہ کتابیں پڑھ لیتا ہے جو اسے لازمی پڑھنی چاہئیں۔
میرا دل تو چاہتا ہے کہ اپنی پسند کے مطابق کتابوں کی ایک فہرست بنائوں، کسی دن ان شااللہ ایسا کروں گا۔ جب بھی ایسا کیا، انہی کالموں میں ان شااللہ شیئر کروں گا۔ البتہ تین چار اصول ایسے ہیں جو کسی طالب علم کو یا کتابوں میں دلچسپی لینے والے نئے آدمی کو سمجھنے چاہئیں۔ عام طور سے وہ لوگ جو لکھنا چاہتے ہیں یا اپنی فیس بک وغیرہ پر لکھنے کا آغاز کر چکے ہیں، انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ مطالعہ خاصا کم ہے، وہ کتابوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ پڑھنے کا تناسب زیادہ رکھیں۔ عام طور سے دس یا بیس ایک کا تناسب کہا جاتا ہے۔ آپ نے ایک ہزار لفظ لکھنے ہیں تو اچھی کتب کے دس بیس ہزار الفاظ پڑھ رکھے ہوں۔ نکتے پر غور کریں، میں نے کالم یا سوشل میڈیا پوسٹیں نہیں کہا، بلکہ کتاب کہی۔ کتاب میں کالموں اور فیس بک، واٹس ایپ سٹیٹس سے کئی سو گنا زیادہ گہرائی ہوتی ہے۔ آپ ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو اچھی معیاری دس بیس تیس کتابیں تو پڑھ لیں۔ اصول بس یہ یاد رکھیں کہ اچھا لکھنے کے لئے اچھا اور زیادہ پڑھنا ضروری ہے۔
لکھنے کے لیے پہلے زبان سیکھیں۔ جس بھی زبان میں لکھنا ہو، پہلے اسے سیکھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے اس زبان میں اچھی اور درست نثر لکھنے والوں کو پڑھیں۔ اپ بے شک ایک بار زبان سیکھ لینے کے بعد اسے اپنی مرضی سے بگاڑ دیں، سوشل میڈیا کی بگڑی ہوئی زبان لکھتے رہیں، مگر پہلے اچھا اور درست لکھنا آتا ہو۔ تب آپ کو یہ غلطیاں بھی معاف ہوسکتی ہیں۔ جس طرح نثری شاعری کرنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ پہلے ٹھیک سے شاعری کرنا تو سیکھ لو، پھر یہ تجربے کرنا۔
ہمارے علما دین میں سے کئی ایسے ہیں جو شاندار نثر لکھتے ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی نثر پڑھنا کسی ضیافت سے کم نہیں۔ کیا خوبصورت زبان ہے ان کی۔ ٹھاٹھیں مارتا علم کا سمندر اور ساتھ بے داغ، جگمگاتی نثر۔ میں ذاتی طور پر مولانا مناظر احسن گیلانی کو بھی بہت پسند کرتا ہوں۔ ان کی زبان بھی خوبصورت ہے اور طرز استدلال بھی کمال ہے۔
مولانا آزاد کو کون کم بخت نہیں پڑھے گا۔ غبار خاطر پڑھے بغیر تو آپ کے مطالعہ کی فہرست مکمل ہی نہیں ہوتی۔ تذکرہ، قول فیصل، خطبات آزاد وغیرہ۔ غبار خاطر پڑھنے سے پہلے اگرچہ چند ایک کتب پڑھ لی جائیں تو اچھا ہے کہ اس کی نثر کی سطح کچھ بلند ہے۔ مولانا مودودی کی فکر اور سوچ سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے، مگر وہ بہت خوبصورت اور رواں نثر لکھتے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی خطبات بہاولپور کی عجب بات یہ ہے کہ یہ بولے گئے لیکچرز ہیں مگر ایسے مرتب، تراشے ہوئے جیسے لکھے گئے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی دیگر کتب بھی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جناب مفتی تقی عثمانی صاحب کی نثر بھی شاندار ہے، اتنا عمدہ، رواں اور شستہ لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا اش اش کر اٹھے۔
ایک اور اصول جو کارآمد ثابت ہوتا ہے، وہ یہ کہ آسان سے آغاز کریں۔ آپ نے پہلے کبھی نصابی کتب کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا، مطالعہ کم رہا مگر اس کمی کو دور کرنا چاہتے ہیں تو آغاز آسان زبان والی کتب سے کریں۔ اگر براہ راست کسی بہت ہی مقفع مسجع نثر والی کتاب پر چھلانگ لگا دی تو شاید آپ کی حوصلہ شکنی ہوجائے۔ سادہ، خوبصورت نثر والی کتابوں سے پہل کریں۔ اگر فکشن یعنی ناول وغیرہ پڑھنے کا ارادہ ہے تو اس میں بھی آسان سے شروع کریں۔ جیسے مستنصر حسین تارڑ کے ہلکے پھلکے ابتدائی ناول۔ اگر آغاز ہی آپ نے آگ کے دریا سے کر دیا تو اس کے ابتدائی صفحات پڑھ کر ہی رفوچکر ہو جائیں گے۔
ایک بار میرے پاس مشہور زمانہ روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کے ناول ”وار اینڈ پیس” کا اردو ترجمہ تھا۔ ایک دوست ملنے آ گئے، ناول پر نظر پڑی تو دیکھتے ہی للچا گئے۔ اس ناول کا بہت ذکر سن رکھا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ پڑھنے کے لیے دیں۔ میں نے عرض کیا اسے تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ناول یا دو عظیم ترین ناولوں میں سے ایک کہا جاتا ہے، یہ بہت وسیع کینوس کا ناول ہے، بے شمار کردار ہیں، اسے پڑھنا یا سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ پہلے اپنا سٹیمنا بنائیں، کچھ ناول پڑھ لیں، ٹالسٹائی ہی کا حاجی مراد پڑھ لیں اور اس طرح چند ایک مزید ناول پڑھیں، پھر وار اینڈ پیس پر آئیں۔ وہ خفا ہوگئے، کہنے لگے کہ میں ڈبل ایم اے ہوں، بہت سی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، مجھے جاہل سمجھ رکھا ہے۔ خیر میں نے انہیں وہ ناول تھما دیا۔ دو دن بعد واپس کر گئے، کہنے لگے آپ نے درست کہا تھا، میرے تو پلے ہی کچھ نہیں پڑا، ایک تو مشکل روسی نام، دوسرا اتنے کردار، سب گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ میرے پاس مسکراہٹ کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔
بعض لوگ کتاب کا لمس پسند کرتے ہیں، انہیں ہارڈ کاپی ہی اچھی لگتی ہے۔ ایسے لوگ غنیمت ہیں، کیونکہ نئی کتابیں چھپتی ہی خریداروں کے لئے ہیں۔ اگر ہر کوئی پی ڈی ایف کے چکر میں پڑ جائے تو کتاب چھپنا ہی ختم ہوجائے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر میرا اپنا تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آج کل کے زمانے میں ای بکس پڑھنے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ بہت بار آپ کو کوئی اچھی کتاب ویسے نہیں مل پاتی، لیکن آپ اسے کہیں نہ کہیں سے ڈاون لوڈ کر لیتے ہیں۔ نایاب کتب، آوٹ آف پرنٹ کتابیں یا ہندوستان، عرب دنیا یا مغرب میں چھپی کتابیں۔ اگر کہیں کسی ای لائبریری سے وہ کتاب مل جائے تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس لیے بے شک نئی کتابوں کی پی ڈی ایف نہ کھوجیں، کتاب خرید کر پڑھیں، مگر ای بکس پڑھنے کی عادت بنا لیں کہ اس کے بغیر اب گزارا نہیں۔ یہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے، اس میں یہ ٹرینڈ بڑھتا جائے گا۔ اس لئے چپکے سے یہ عادت ڈال لیں۔ موبائل پر پڑھنا مشکل ہے تو لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ پر پڑھنا شروع کر دیں۔ ڈیسک ٹاپ سستا پڑتا ہے، اکیس انچ کے مانیٹر پر پڑھنا بھی سہل ہے۔ یہ مشورہ گرہ باندھ لیں، کام آئے گا۔