(آخری حصہ)
اگلی صبح وزیر اکبر خان میں جو کہ کابل کا پوش علاقہ ہے، وہاں جانا ہوا۔ انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جس میں صفائی کا اپنا معیار ہے۔ وزیر اکبر خان میں چند ملاقتیں تاجروں اور دیگر افراد سے ہوئیں۔ ان ملاقتوں میں تاجروں کا ایک بات پر زور رہا کہ مہاجرین اور تجارت کے مسائل کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے۔
امارت اسلامی کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہوا۔ ان کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی کہ امارات اسلامی میں کوئی اختلاف ہے، وہ امیرالمومنین شیخ ہیبت اللہ اخندزادہ کی قیادت میں متحد ہیں۔ البتہ خواتین کے تعلیم کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، اس پر بات چیت ہو رہی ہے کہ اس کو کس طرح حل کیا جائے۔
ہم نے چار سو بستر اسپتال کا دورہ بھی کیا۔ وہاں خواتین کا م کررہی تھیں، کئی نے نقاب بھی نہیں کیا ہوا تھا۔ وہاں سے فار غ ہونے کے بعد خیر خانہ گئے۔ وہاں سے باگرام اور چاریکار والی سڑک پر سفر کیا۔ یہ سڑک امارات اسلامی نے بہت تیزی سے مکمل کی ہے اور یہی وہی راستہ ہے جو کہ قلعہ مراد بیگ، میر بچہ کوٹ، کارا باغ سے چاریکار سے ہوتا ہوا سالنگ کو جاتا ہے جس کے ایک جانب پنجشیر کی وادی شروع ہوتی ہے اور دوسری جانب سے یہ سڑک شمالی علاقوں کو کابل سے منسلک کرتی ہے۔ دائیں طرف ایک سڑک مشہور باگرام کے ہوائی اڈے کی جانب جاتی ہے، جسے امریکا نے اپنی اہم اڈے ائیر بیس کے طور پر اکیس سال استعمال کیا۔ یہاں امریکا نے بدنام زمانہ جیل بھی بنا رکھی تھی جس میںطالبان قیدیوں اور رہنماؤں پر بدترین تشد دکیا جاتا تھا۔ اب یہ بیس طالبان کے زیرنگین ہے۔ سڑک کے بائیں جانب پر پہاڑی سلسلہ گل درہ اور شکردرہ ہے۔ خیر سالنگ ٹنل برف باری کی وجہ سے بند ہونے کا اعلان ہوچکا تھا، ہم واپس کابل آئے اور اگلے دن بذریعہ جہاز مزار شریف جانے کے لیے ٹکٹ خریدا۔
مزار شریف شمالی علاقوں کا اہم مرکز ہے۔ یہ رشید دوستم اور اسی نجی ملیشیاکا ہیڈکوارٹر بھی تھا۔ جی وہی رشید دوستم جس نے دس ہزار سے زیادہ افغان طالبان کو دشت لیلیٰ میں انتہائی تشدد کرنے کے بعد دفن کردیا تھا، جن کی قبریں آج بھی نامعلوم ہیں۔ البتہ امارات اِسلامی نے اس دشت میں نشاندہی کے بعد علامتی قبرستان بنا لیا ہے۔ آج مزار شریف میں دوستم بھی نہیں اور اس کی ملیشیا بھی نہیں۔ کابل ائیر پورٹ مکمل فعال نظر آیا۔ امارات اسلامی کے اہلکار چوکس نظر آئے، بورڈنگ کاؤنٹر پر خواتین اہلکار موجود تھی جنھوں نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا۔ یہ جو لوگ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ خواتین پر ملازمتوں کی پابندی ہے، اس کی نفی نظر آئی۔ خیر ہم نے بورڈنگ پاس لیا اور لاؤنج میں جاکر انتظار کرنے لگے۔ افغانستان کی آریانا ائیرلائن کی یہ پرواز کابل سے مزار، جس کا ٹکٹ پاکستانی روپوں میںتقریبا بیس ہزار روپے تھا، اچھی پروازہے۔ جہاز میں بھی خواتین عملہ موجود تھا۔ خیر جہاز تقریباً چالیس منٹوں تک پرواز کے بعد مزار شریف کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ائیرپورٹ پر رش نہیں تھا، کیونکہ مزار شریف کے لیے آریانا اور کام ائیر کی ہفتے میں چند ہی پروازیں ہیں۔ ائیرپورٹ سے باہر آئے تو ایک دوست کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر آگے نکل گئے۔
اسی دوران خبر آئی کہ طورخم ایک بار پھر بند ہوگیا ہے۔ اس خبر کے بعد پاکستانی تاجر اور افغان تاجر پریشان ہوگئے، کیونکہ آلو اور کنو کا سیزن ہے اور ازبکستان کے لیے ان کی گاڑیاں پاکستانی سائیڈ پر طورخم پہنچ چکی تھیں۔ ہمارے ایک پاکستانی تاجر دوست حاجی ثمین نے کہا کہ ہماری تجارت پہلے ہی اَسی فیصد افغانستان کے ساتھ کم ہو چکی ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ختم ہو جائے گی، کیونکہ ازبکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدوں میں اگر وقت پر ڈیلیوری نہیں کی جائے تو بھاری جرمانے اور نقصان پاکستانی تاجروں کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ، انھوں نے بتایا کہ اس وقت اس کی کئی گاڑیاں راستے میں ہیں اور بارڈر باربار بند ہونے سے مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مزارشریف سے حیرتان کا سفر کیا۔ یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد ہے۔ یہ وہی سرحد ہے جس سے پاکستان سے بذریعہ افغانستان سے ازبکستان، کرغیزستان، قازقستان تجارت ہو رہی ہے۔ سرحد کی دوسری جانب ازبکستان کا مشہور شہر امام ترمذی کا شہر ترمذ ہے۔ درمیان میں آمو کا مشہور دریا ہے جس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح سمرقند، بخارا اور بلخ کی ریاست حضرت قتیبہ بن مسلم باہلی نے فتح کی تھی۔ کس طرح امیر تیمور ان علاقوں پر حکمرانی کرتا رہا۔ مغل حکمران کہاں سے آئے۔ بارڈر پر سینکڑوں گاڑیاں موجود تھیں جوکہ ازبکستان داخل ہونے کو تیار تھیں۔ حیرتان تک ازبکستان اور قازقستان سمیت چین سے ریل کے ذریعے کاروبار شروع کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مزار شریف سے خرلاچی پاکستان اور مزار سے پشاور تک ریل پروجیکٹ پر کام کیوں نہیں ہوسکتا؟ دونوں جانب کے عوام امن اور تجارت چاہتے ہیں۔ دونوں جانب ایک زبان ایک ثقافت اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا ایک ہی سوال ہے کہ کیا کرتارپور اگر بغیر ویزے کے کھل سکتا ہے تو طورخم کیوں نہیں؟