نظریۂ ارتقا کی درمیانی کڑی

برطانوی مفکر چارلس رابرٹ ڈارون جو ایک ڈاکٹر باپ کا بیٹا اور خود ایک بیالوجسٹ تھا ا ور جس کا خاندان شہر میں خوشحال گردانا جاتا تھا، اس نے اپنے دور میں نظریہ ارتقا پر ایک کتاب بنام On the Origin of Species تحریر کی تھی جس میں اس نے تحقیق سے ثابت کیا تھا کہ ہر جاندار نے درجہ بدرجہ ترقی کرکے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل حاصل کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مثلاً زرافہ نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے ہی رفتہ رفتہ لمبی کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ انسان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کر تے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل حاصل کی ہے۔ اس کے نزدیک بندر (چیمپینزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پائوں اوپر اٹھائے تھے، جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوا تھا اور پھر رفتہ رفتہ اس کے جسم کے گھنے بال کم ہونے شروع ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی سے اس میں عقل کی نشوو نما ہونے لگی تھی، چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا ہے کہ انسان کے آباء و اجداد اپنی اصل میں بندر تھے۔ وہ زور دیتا ہے کہ انسان پہلے انسان نما بندر، پھر بندر نما انسان اور پھر آخرکار مکمل انسان بن سکا ہے۔

ڈاروِن کے اس انکشاف نے سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد پر گویا سکتہ طاری کر دیا تھا جس کے بعد وہ اس پر بلاتردد ایمان رکھنے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کا ایک اعلی تعلیم یافتہ یہودی رِبی بن یامین بلیخ بھی اس کے نظریے کی تائید کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ ہمیں تورات کی جانب دیکھنا چاہیے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ اس کے مطابق تورات کہتی ہے کہ موجودہ دنیا اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک سامنے آسکی ہے۔ بن یامین سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ خدا نے جب تخلیقِ کائنات کا منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن اس نے دن کو جنم دیا تھا۔ پھر دوسرے دن اس نے آسمان کی پیدائش کی تھی۔ تیسر ے دن اس نے خشک زمین کو جنم دیا تھا۔ چوتھے دن سورج اور چاند تاروں کی تخلیق، پانچویں دن مچھلیوں اور پانی کی تخلیق، اور آخری اور چھٹے دن چوپایوں اور انسانوں کی تخلیق کی تھی۔ ربی بن یامین سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ (کتاب Jewish History and Culture )
اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈاروِن کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ رِبی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈاروِن کے نظریے سے متفق ہیں۔ پھر یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مفاد پرست لوگ جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے کر آتے ہیں؟ یعنی وہ اس معاملے میں مقدس کتابوں تک کو بھی نہیں بخشتے۔

ایک طویل مدت تک ڈاروِن کے اس نظریے کی تشہیر ہوتی رہی۔ اس پر ایمان رکھنا تب گویا زمانے کا فیشن سا بن گیا تھا۔ ا س دور کے دانشور اور علما و فضلا ڈارون کی اس تحقیق پر جیسے جھوم جھوم کے رہ گئے تھے۔ اپنی اصل الٰہی تخلیق، حضرت آدم و حوا کی نسل ہونے کو چھوڑ کر انہوں نے خود کو بآسانی بن مانسوں کی اولاد قرار دے لیا تھا۔ انہوں نے یہ تمام ”علمی” کام دراصل گرجائوں پر حملے کی خاطر کیا تھا جو علم سے لوگوں کو دور رکھتے تھے اور خود کو مذہبی ٹھیکیدار قرار دیتے تھے۔ آبادی منصوبہ بندی، تحریک حقوق نسواںاور پہلا انسان جنگلی تھا وغیرہ جیسی ”علمی” تحریکیں دراصل عیسائیوں کو کلیسا و مذہب سے بے گانہ کرنے کی تحریکیں تھیں۔ اگرچہ اس نظریے کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظرِعام پر آرہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیں، اگر اس کے ایک دو پہلوؤں کا ہم خود بھی جائزہ لے لیں۔
کہا گیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے اس نے پہلے اپنے اگلے دونوں پائوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنا شروع کیا تھا۔ (اس قسم کی مفروضہ تصاویر انسائیکلو پیڈیا میں کافی پیش کی گئی ہیں) تاہم عقل ان کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے اِبا کرتی ہے۔ وہ اسے پہلی فرصت میں رد کرتی ہے۔ انسان کچھ عرصے کیلئے تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن خود کو اس صورت میں مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ایسا کرنا اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ حیوانات بے فکر ہو کر اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پائوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہوں لیکن چلیں وہ کسی قدر جھک کر محض دو پیروں کی مدد سے، تویہ عمل حیوانات (انسانوں اور جانوروں) کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ نظریے میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ ارتقا کی منزل میں زرافوں نے اپنی گردن موجودہ شکل میں اونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے تبدیل کی تھی۔ حالانکہ یہ محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنسدانوں نے بہت تحقیق کے بعد میں ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں، ان میں بھی ان کی گردن آج ہی کی مانند لمبی پائی گئی ہے، تاہم جوں جوں علم اور وقت آگے بڑھتے گئے، ڈاروِن کے نظریات مسلسل سوالات کی زد میں آنے لگے اور کئی زاویوں سے اس کے انکشافات شکوک و شبہات کی نذر ہونے لگے۔ حیرت انگیز طورپر بعد کی لگاتار سائنسی تحقیق سے صورتحال ایک بالکل نئے انداز میں سامنے آنے لگی۔ معلوم ہوا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈاروِن نے پیش کیے تھے، بلکہ حقائق کچھ اور ہیں۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظر یات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں۔ سائنسدانوں نے اس موضوع پر دلائل بھی فراہم کیے اور مضامین و مقالات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انسان اپنی ابتدا میں بھی آج ہی کی طرح کا ایک مکمل انسان تھا جس کا بندروں کی نسل چیمپینزی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

لیکن حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ بالاگمراہ کن نظریہ آج بھی حسبِ سابق شدو مد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ نئی وجدید تحقیقات اپنی جگہ، لیکن ڈارون کا نظریہ ارتقا اپنی جگہ۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دہری نظریات کے حامل دانشور دنیا کے لوگوں کو ان کے خالق سے بالکل کاٹ کر رکھ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے۔ اسی سلسلے کو یہ لوگ الیومیناتی نظام (یعنی روشنی کا نظام) قرار دیتے ہیں۔ الیومیناتی دانشور قرار دیتے ہیںکہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ شیطانی نظام ہی کو بالادستی ہوگی اور اسی کا سکہ یہاں رائج ہو کر رہے گا۔ اگرچہ وہ اسے روشنی کا نظام قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ اندھیرے اور شیطنت کا نظام ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ فردوس بریں میں مستقل طور پرٹھکانا دے، عالیشان محل میں سکونت عطا کرے، اسے تمام قسم کی سہولتیں مہیا ہوں اور زمین پر اسے خاص اپنا خلیفہ بنا کر روانہ کرے، زمین پر اتار کر پھر وہ اسے لاوارث چھوڑ دے، برہنہ رہنے پر مجبور کرے، لباس عطا نہ کرے، غاروں اور جنگلوں میں زندگی گزارنے کیلئے چھوڑ ے؟ اللہ تو کہتا ہے کہ ہم نے اسے (انسان کو) احسن تقویم پہ پیدا کیا ہے۔ یعنی اس جیسا جسم، صلاحیت اور دماغ کسی اور مخلوق کو نہیں دی ہے۔ نیز اپنی انہی صلاحیتوںکی بنا پر انسان اشرف المخلوقات گردانا جاتا ہے۔ قرآن میں انسان کی تعریف میں یہ تک کہا گیا کہ ولقد کرمنا بنی آدم (بنی اسرائیل) یعنی ہم نے بنی آدم کو بہت احترام دیا ہے لیکن افسوس ناک طور پر ڈاروِن کے پیروئوں کو یہ احترام پسند نہیں آیا۔ (جاری ہے)