پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان مختلف شعبوں میں معاہدے طے پا گئے جنہیں ایک ماہ میں حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے دوروزہ دورہ آذر بائیجان کے موقع پر باکو میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تیل وگیس،زراعت ، ماحولیاتی تحفظ ،سیاست ،تعلیم اور سائنس وٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے شرکت کی۔
تقریب کے دوران پاکستان اور آذربائیجان میں ایل این جی کی خرید و فروخت کے فریم ورک معاہدے میں ترمیمی معاہدہ ہوا تقریب کے دوران آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آذربائیجان کے صدر کے ساتھ انتہائی تعمیری مذاکرات ہوئے، صدر الہام علیوف کی پاکستانی عوام کے ساتھ لگاؤ پر فخر ہے۔ 2 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدوں پر اپریل میں اسلام آباد میں دستخط ہوں گے۔اس موقع پر آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ آذربائیجان کا دورہ کرنے پر وزیراعظم شہبازشریف کا ممنون ہوں،دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری کو فروغ دے رہے ہیں، خطے کی صورتحال اور سلامتی کے امور پر یکساں نقطہ نظر رکھتے ہیں، گزشتہ سال پاکستان کے دورے میں دوطرفہ تعاون سے متعلق اہم پیشرفت ہوئی۔
پاکستان اور آذر بائیجان کے درمیان دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا سمجھوتا ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی حکومت پاکستان کی کوششوں کے ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہے اور اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ دونوں حکومتوں نے اس سمجھوتے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے بھی ایک متعین ٹائم فریم طے کرلیا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اگلے دوماہ میں تمام مفاہمتی یادداشتوں کو باقاعدہ معاہدوں کی شکل دے کر ان پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔ یقینا اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ ملے گا اور پاکستان کو خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کے حصول میں مدد ملے گی۔ آذر بائیجان تیل و گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کے ساتھ آذر بائیجان کی حکومت کے تعلقات ہمیشہ اچھے اور مثبت رہے ہیں۔ پاکستان اور آذربائیجان ایک دوسرے کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنی اپنی معیشتوں کو ترقی دے سکتے ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔چنانچہ ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق پاک سعودی تجارتی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم 700 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ایس آئی ایف سی کی سہولت کاری سے پاک سعودی تجارتی تعلقات کو فروغ مل رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی سعودی عرب کو برآمدات میں 22 فیصد اضافہ ہونے سے تجارتی حجم 546 ملین ڈالر سے بڑھ کر 700 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ سعودی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان کے توانائی، زراعت، آئی ٹی اور تعمیراتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاک سعودی عرب آئی ٹی خدمات کی برآمدات 50 ملین ڈالر سے بڑھا کر 100 ملین ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے عمل میں سہولت کاری کے لیے ہیلپ ڈیسک کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ معروف سعودی فوڈ چین البیک کا پاکستان میں اپنی برانچز کھولنے کا اعلان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اوراچھی خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف بھی پاکستان میں موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کے شعبے میں سات ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری پر آمادہ نظر آتا ہے۔ آئی ایم ایف کا 4 رکنی وفد تکنیکی مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچ گیا ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد وفاق سمیت صوبوں کے ساتھ مذاکرات کرے گا۔مذاکرات میں آئی ایم ایف گرین بجٹنگ کلائمٹ اور موسمیاتی تبدیلی کی ٹریکنگ اور رپورٹنگ پر تبادلہ خیال ہو گا، وفد کلائمٹ بجٹنگ کے منصوبوں پر بھی بات چیت کرے گا۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی وفد کے درمیان کلائمیٹ فنانسنگ پر مذاکرات ہوئے۔ آئی ایم ایف نے گرین بجٹنگ کی ٹیگنگ، ٹریکنگ اور مانیٹرنگ پر مذاکرات کیے، آئی ایم ایف کو وفاقی اور صوبائی حکام نے گرین بجٹنگ پر بریفنگ دی۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تکنیکی وفد نے صوبوں کو وفاق کے اقدامات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ گرین بجٹنگ پر وفاق کے اقدامات پر مطمئن ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اگلے ماہ کے وسط تک پاکستان آئے گا۔جائزہ مشن کے ساتھ سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ فسیلیٹی پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنے کیلئے مذاکرات ہوں گے۔پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ موسمی تغیرات کے حوالے سے پاکستان کی یہ گزارش سن لی گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر موسمی تغیرات کے اسباب پیدا کرنے والے ممالک میں شامل نہ ہونے کے باوجود ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے لہٰذا یہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ موسمی تغیرات سے نمٹنے کی جدوجہد میں پاکستان کا ہاتھ تھامے۔اگر چہ پاکستان کو اصولی طور پر اس مد میں قرض نہیں بلکہ امداد دی جانی چاہیے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری کی صورت میں توقع ہے کہ دیگر عالمی ادارے اور ممالک بھی گرین بجٹنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے مواقع ملکی معیشت کو ترقی و استحکام کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ممد اور مددگار ثابت ہوسکتے ہیں تاہم اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام برقرار رہے، امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے پر توجہ دی جائے، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول قائم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور دوست ممالک کو تمام منصوبوں میں شفافیت اور بر وقت تکمیل کی سرکاری سطح پر ضمانت دی جائے۔اگر ایمانداری اور لگن کے ساتھ محنت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایشیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن کر نہ ابھر سکے۔