مولانا ابوالکلام آزاد۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

متوسط قامت، اکہرا بدن، گورا رنگ، کتابی چہرہ، سفید چھوٹی داڑھی، شاہیں نظر، متحرک اور روشن آنکھیں، آواز بلند و پر جلال، مزاج میں تمکنت و وقار، خلقتاً خلوت پسند و گوشہ نشیں، طبیعت باغ و بہار، زہد و استغنا اور صبرِ جمیل کا مجسمہ، خوش رو و خوش پوشاک، مشرقی شرفا کا لباس زیبِ تن کیے ہوئے، سر پہ اونچی کالی ٹوپی، غیرت و خوداری، زبان و بیان کے دھنی، متحدہ ہندوستان میں ان سے بڑا کوئی گفتگو طراز اور زباں شناس نہیں تھا، زبان ان کی لونڈی، ہزاروں تقریریں کیں، ہر تقریر سراپا انتخاب بلکہ لاجواب، گفتگو کرتے تو دل و دماغ اور زبان کی معراج پر ہوتے، مخاطب و سامع بے اختیار ہو کر سر دھنتے، قلم کے ایسے دھنی کہ حلقہ ادیباں میں یگانہ روزگار، مشاعروں میں سحر طراز سخنور، مدبروں میں سرِ خیل، سیاست دانوں میں ایسے منفرد و ممتاز کہ کوچہ سیاست میں قدم رکھتے ہی صفِ اول کے قائدین میں شامل ہوگئے، گاندھی اور نہرو ان کے فہم و فراست، دانش و بینش، دور بینی و دقیقہ رسی، تفکر و تدبر کا کلمہ پڑھتے۔ علمی مرتبت اس قدر بلند کہ معاصرین ان کی شان میں رطب اللسان رہتے، آپ کی شخصیت جامعیت کا شاہکار تھی، تفسیر میں یکتا، ترجمے میں منفرد، حدیث و فقہ میں بے مثال، ادب میں بحر نا پیدا کنار، شاعری کا معدن اور نثر میں رستم و اسفندیار، علم و عرفان کی آبشار، صحافت کے شہسوار، سیاست میں ذی وقار۔

یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے مولانا ابوالکلام آزاد کے کمالات فاضلہ و صفات کا۔ ایسی عبقری شخصیات کو بھلانامعمول بن چکا ہے، ایسے محسنوں کی ولادت و وفات کے ایام تک کسی کو یاد نہیں، چہ جائیکہ ان کی ہمہ جہت صفات سے راہنمائی لی جائے، الٹا ان کا تذکرہ بھی شجر ممنوعہ قرار پاتا ہے۔
مختصر حالات زندگی۔ مولانا آزاد11 نومبر 1888 ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان میں 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد خاندان نے مکہ ہجرت کی۔ والد مولانا خیرالدین1898 میں خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں قیام پذیر ہوئے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ 1912 میں انہوں نے الہلال شروع کیا۔

ابوالکلام آزاد اور,ہفت روزہ الہلال لازم و ملزوم تھے، الہلال شمع تھی تو مولانا اس کے پروانے، الہلال ناقہ تھا تو آزاد اس کے حدی خواں تھے، الہلال کارواں تھا تو مولانا آزاد میرِ کارواں تھے، الہلال عہدِ ماضی یاد دلانے اور غفلت سے بیداری کیلئے صور اسرافیل تھا۔ الہلال مذہب، سیاست، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، سوانح، ادب و انشا کا حسین مرقع تھا، مولانا آزاد کا، اسلوبِ نگارش، سحر سامری سے کم نہ تھا، آپ کا قلم اردو زبان و ادب کا ایسا معجزہ تھا، جس کی تقلیدنا ممکنات میں سے تھی، آپ اپنے اسلوب کے موجد، طرزِ ادا کے بانی اورخاتم بھی تھے۔ آپ کی حسنِ نگارش کے متعلقہ شبلی نے کہا کہ ”میں ایجازاور ابو الکلام اطناب کے بادشاہ ہیں۔ ”عطاء اللہ شاہ بخاری کے بقول ”الہلال نے مجھے خطابت سکھائی، سیاست پڑھائی اور زبان کی ندرت بخشی۔ ” مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی فرماتے ہیں کہ مجھے سیاست کا چسکا الہلال نے ڈالا اورمولاناآزاد نے میدانِ رست و خیز میں لا کھڑا کیا۔ ڈیسائی لکھتے ہیں کہ مولانا کمالات و محاسن کا ایسا نمونہ ہیں کہ ان کی ذات ہندوستان کا علم، یونان کے فلسفے، حجاز کے حافظے، ایران کے حسن اور جدید یورپ کے دانشِ علم سے معمور ہے۔ مولانا احمد سعید دہلوی فرماتے ہیں کہ مولانا آزاد نے ترجمان القرآن میں قرآن کی عربی مبین کو اردوئے مبین کے حسین قالب میں ڈھال دیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ مولانا علم کے بادشاہ ہیں، میں انہیں افلاطون، ارسطو، فیثاغورث کی طرح کا انسان سمجھتا ہوں، کوئی بھی ان کا ہم پایہ نہیں۔ ایسی عبقری شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

سیاسی منظرنامے میں قومی اتحاد کے داعی رہے۔ 1923 میں کانگریس کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج بھی اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے 24 گھنٹے میں ہمیں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔ آزادی ملنے میں تاخیر سے ہمارا کچھ نقصان ضرور ہو گا لیکن اگر ہمارا اتحاد ٹوٹ گیا تو پوری انسانیت کا نقصان ہو گا۔
مولانا آزاد دو قومی نظریے کے مخالف تھے۔ 15 اپریل 1946ء کو کانگریس کے صدر کی حیثیت سے مولانا آزاد نے کہا کہ میں نے مسلم لیگ کے الگ ملک کے مطالبے کو ہر زاویے سے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ فیصلہ نہ صرف ہندوستان کے لیے نقصان دہ بلکہ اس کا خمیازہ خود مسلمانوں کو بھی بھگتنا ہوگا۔ کسی حل کی بجائے یہ فیصلہ مزید مسائل پیدا کرے گا۔ نفرت کی بنیاد پر بننے والا نیا ملک اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک یہ نفرت زندہ رہے گی، جب تقسیم کی یہ آگ ٹھنڈی ہونے لگی تو یہ نیا ملک بھی مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ مولانا آزاد نے جوکہاوہ 1971 میں سچ ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک متحد نہیں رہ سکے گا، سیاسی قیادت کی بجائے فوج کی حکومت ہو گی، یہ ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا اور اسے ہمسایہ ممالک سے جنگ کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں امیر تاجر قومی دولت کا استحصال کریں گے اور عالمی طاقتیں اس پر تسلط جمانے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں مقیم لوگ اپنی علاقائی شناخت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بلاشبہ ان کا حقیقت واقعہ بن کر سب کے سامنے ہے۔ وہ بلا جھجک کہتے ہیں۔
اب تو ہے سب کی زباں پر جو ہمارے دل میں ہے

تصنیفات:
ترجمان القرآن، تصورات قرآن، قرآن کا قانون عروج و زوال، یاجوج ماجوج، رسول رحمت (سیرت رسول ۖ پر مقالات کا مجموعہ) سیرت رسول ۖ کے عملی پہلو، صدائے حق، حقیقت زکوٰة، حقیقت حج، حقیقت الصلوٰة، جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد، تحریک آزادی، ایمان اور عقل، اولیاء اللہ و اولیاء الشیطان، انسانیت موت کے دروازے پر، اسلام میں آزادی کا تصور، ارکان اسلام، رسالہ عزیمت و دعوت، ہجر و وصال، ہماری آزادی، غبار خاطر، حیات سرمد، آزادی ہند، تحریک نظم جماعت، اسلام اور نیشنلزم، عروج و زوال کے فطری اصول، اسلام کا نظریہ جنگ، شہادت حسین، مسئلہ خلافت، غضب ناک محبوبہ (ایک افسانہ کا ترجمہ) صدائے رفعت، ذکری، درس وفا اور قول فیصل۔

مولانا ابو الکلام آزاد الہلال، البلاغ، لسان الصدق، نیرنگ عالم، احسن الاخبار، خدنگ نظر، ایڈورڈ گزٹ، الندوہ، وکیل اور دارالسلطنت کے مدیر رہے۔ مولانا آزاد نثر ہی نہیں، شاعری کے بھی بے تاج بادشاہ تھے۔ مولانا کی ایک غزل کے چند اشعارِ ملاحظہ کیجیے۔
کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزاد شامل ہو گیا
مختصراً آپ نے تقریباً ہر میدان میں اپنے نقوش چھوڑے، خواہ وہ شعر گوئی ہو یا نثر نویسی، تقریر و خطابت ہو یا تصنیف و تالیف، سیاسی میدان ہو یا علمی میدان الغرض آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلں کا مختصر تحریر میں احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔