حماس نے نفسیاتی جنگ میں اسرائیل کو شکست دے دی (ابوصوفیہ چترالی)

غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمت کاروں نے 6 اسرائیلی قیدیوں کو رہا گیا۔ اس موقع پر جو تقریب منعقد کی گئی تھی، اس کے مناظر نے اسرائیلی حکام کے علاوہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو برہم کردیا، جس کے بعد 600 سے زاید فلسطینیوں کی رہائی روک دی گئی۔

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اس تقریب نے گویا نیتن یاہو کا پتہ جلا دیا۔ اسرائیلی قیدیوں کی ساتویں قسط کی رہائی کے پیچھے کی تفصیلات دکھائی گئی تھیں، انہیں نہایت باریک بینی سے مرتب کیا گیا تھا، نفسیاتی جنگ کے حربے کو بڑے موثر انداز میں استعمال کیا گیا۔ اس ویڈیو کے ایک منظر نے اسرائیلی پروپیگنڈے کی ساری عمارت کو زمیں بوس کر دیا، جسے کھڑا کرنے میں اس نے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں۔ وہ منظر گویا دنیا بھر کے سوشل صارفین کے ذہنوں میں چپک کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ 16 گھنٹوں کے دوران اسے نیوزی لینڈ سے لے کر امریکا تک کے صارفین شیئر کررہے ہیں۔
یہ وہ منظر ہے جس میں رہائی پانے والا اسرائیلی نوجوان قسام کے اسپیشل یونٹ وحدة الظل کے ایک سپاہی کو سر پر بوسہ دیتا ہے۔ دنیا بھر کے صارفین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہ اچھا، یہ ہیں وہ دہشت گرد جن کے ساتھ 500 دن گزارنے والا قیدی رخصتی کے وقت ان کا ماتھا چوم رہا ہے! اس کے دوسرا منظر وہ تھا جس میں دو اسرائیلی قیدی بھی نظر آئے جو ابھی تک رہا نہیں ہوئے ہیں؛ ’افتیار ڈیویڈ‘ اور ’گائی گلبوگ دلال‘ کو ایک گاڑی میں دکھایا گیا جو قیدیوں کی رہائی کے میدان کے وسط میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پیغام صرف ان کی موجودگی کی تصویر تک محدود نہیں تھا بلکہ دونوں قیدیوں نے براہ راست اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم نیتن یاہو کو پیغامات بھیجے، جن میں وہ اپنی زندگی کو بچانے کے لیے فوری مداخلت کی درخواست کررہے تھے۔ ویڈیو عربی اور اسرائیلی سوشل میڈیا پر تیز رفتاری سے پھیل گئی اور عرب دنیا میں صارفین نے اسے بڑی پسندیدگی سے شیئر کیا۔
انہوں نے القسام کی جنگی نفسیات میں استعمال کی جانے والی میڈیا حکمت عملی کی تعریف کی۔ کچھ لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ قیدیوں کا اس لمحے میں اپنے ساتھیوں کی رہائی کو شیشے کے پیچھے سے دیکھنا، نفسیاتی اور میڈیا جنگ کے سیاق میں سب سے ذہین اور جادوئی منظر میں سے ایک ہے۔ صارفین نے اس ویڈیو کو نفسیاتی جنگ میں شدت کا اظہار قرار دیا، نہ صرف اس لیے کہ یہ اسرائیل کی ’عسکری دباو‘ کی ناکامی کو اجاگر کرتا ہے جو وہ اپنے قیدیوں کو واپس لانے کے لیے استعمال کر رہا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ اسرائیلی معاشرے پر بھی اس کا گہرا نفسیاتی اثر پڑا ہے۔

یہ منظر ایک نفسیاتی اور جذباتی حکمت عملی کے تحت بہت سوچ سمجھ کر ترتیب دیا گیا تھا جو اسرائیلی اجتماعی شعور کو نشانہ بناتا ہے، جس سے نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر دباو¿ مزید بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل داخلی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے ایک مختصر لیکن بلیغ پیغام کے ذریعے اسرائیلی داخلی منظر کو متحرک کیا، جو واضح اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جیسے کہ جارحیت کا خاتمہ اور اپنی شرائط کو صحیح وقت اور جگہ پر نافذ کرنا۔
یہ سب کچھ اسرائیل کو چار قیدیوں کی لاشیں حوالے کرنے کے 2 روز بعد ہوا، جس سے اسرائیلی معاشرے پر گہرا نفسیاتی اثر پڑا۔ تمام عسکری تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین نے اتفاق کیا کہ فلسطینی مزاحمت خاص طور پر القسام نے نفسیاتی جنگ کو ایک مو¿ثر اسٹرٹیجک ہتھیار میں تبدیل کر لیا ہے اور اس کا پیغام واضح ہے کہ: جنگ کے جاری رہنے کے نتائج صرف فوجی یا میدان جنگ کی ہار تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ اسرائیلی معاشرتی سطح پر نفسیاتی کمزوری اور ناکامی کے احساس کو بھی گہرا کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے تصدیق کی کہ مزاحمت نے اسرائیل پر تمام پہلوو¿ں میں کامیابی حاصل کی ہے، چاہے وہ اخلاقی ہو، انسانی ہو، میڈیا سے متعلق ہو یا نفسیاتی جنگ ہو۔ انہوں نے ویڈیو کی شوٹنگ اور ایڈیٹنگ کو ’اسکرپٹ، ڈائریکشن اور سیاسی و میڈیا فہم کا ایک تعلیمی نمونہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزاحمت کے اس تخلیقی طریقے کی تعریف کی جس سے وہ سادہ لیکن انتہائی موثر طریقے سے اپنے پیغامات پہنچا رہی ہے۔ یہ ویڈیو نفسیاتی جنگ کو چلانے کے فن میں ایک معیاری نمونہ ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو اور ان کی حکومت اس قسم کے پیغامات سے پیدا ہونے والے دباو کو برداشت نہیں کرپائیں گے۔ اِن مناظر کی اسرائیلی حکام تاب نہ لاسکے اور انہوں نے ہفتے کی شام معاہدے کے مطابق 600 فلسطینیوں کی رہائی روک دی اور اتوار کو اسرائیلی وزیرتوانائی ایلی کوہن نے غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے ناممکن قسم کی 4 شرائط کا اعلان کیا اور مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اپنے حمایتی موقف کا اظہار کیا۔
اسی دوران چینل 12 نے رپورٹ کیا کہ لڑائی کے دوبارہ آغاز کا امکان اب پہلے سے زیادہ خطرہ ہے۔ کوہن جو سیاسی و سیکورٹی اُمور کے لیے کابینہ کی چھوٹی وزارتی کونسل (کابینٹ) کا رکن ہے، نے سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اسرائیل کو دوسرے مرحلے میں منتقلی سے پہلے درج ذیل 4 شرائط درکار ہیں: تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، غزہ سے حماس کا انخلا، غزہ کا اسلحے سے پاک ہونا اور اسرائیل کا وہاں سیکورٹی کنٹرول۔ کوہن نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی رہائی اُس وقت تک نہیں کرے گا جب تک حماس کی جانب سے رہائی کی تقریب میں جو مذاق کیا جاتا ہے وہ بند نہیں کیا جاتا۔ اس نے 4 لاشوں کی واپسی اور قیدیوں (گائی ڈیلال اور اویاتار ڈیویڈ) کی رہائی کا مطالبہ کیا، جنہیں اپنے ساتھیوں کی رہائی کی تقریب دیکھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو اُس وقت تک موخر کردیا گیا ہے جب تک کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی بغیر کسی ”توہین آمیز“ تقریب کے ضمانت نہ دی جائے۔
19 جنوری کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نافذ ہوا تھا، جس میں تین مراحل شامل ہیں، ہر ایک مرحلے کی مدت 42 دن ہے اور ہر مرحلے کے مکمل ہونے سے پہلے اگلے مرحلے پر بات چیت ضروری ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو دوسرے مرحلے کی بات چیت شروع کرنے میں تاخیر کررہے ہیں، جو کہ 3 فروری کو شروع ہونے والی تھی۔ دوسرے مرحلے میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ کا خاتمہ، فوج کا مکمل انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندے اسٹیفن ویٹکوف نے کہا ہے کہ وہ اس ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے تاکہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی پہلی مرحلے کی مدت میں توسیع کے لیے بات چیت کر سکیں۔ ویٹکوف نے امریکی چینل سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: پہلے مرحلے کو توسیع دینے کی ضرورت ہے، میں اس ہفتے بات چیت کے لیے جاوں گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہوگا تاکہ ہم دوسرے مرحلے کا آغاز اور پھر مکمل کر سکیں تاکہ مزید قیدی رہا ہوں۔ تین مراحل پر مشتمل اس معاہدے کا پہلا مرحلہ اپنی تکمیل کے قریب ہے اور 19 جنوری کو نافذ ہونے والے اس معاہدے نے دونوں فریقوں کے درمیان الزامات کے تبادلے کے باوجود اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نیتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہیں گے یا جنگ دوبارہ شروع کریں گے، تو ویٹکوف نے جواب دیا:میرے خیال میں وزیراعظم کے پاس مضبوط وجوہات ہیں، وہ قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں اور یہ بات یقینی ہے، وہ اسرائیل کی حفاظت بھی چاہتے ہیں، اسی لیے ان کے لیے ایک سرخ لائن ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حماس کو حکومتی ادارے میں شامل نہیں کیا جاسکتا، جب اس مسئلے کا حل ہو تو مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں پہلووں میں توازن قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
تاہم اسرائیلی چینل 13 کے مطابق منگل کو فریقین میں معاملات طے ہوگئے۔ مزاحمت کاروں نے 2 اسرائیلی لاشوں کو مصر پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل ان 301 فلسطینیوں کو رہا کرے گا، جنہیں ہفتے کو رہا کرنا تھا پھر 301 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے 2 اسرائیلوں کو آزاد کیا جائے گا۔