مصنوعی ذہانت کے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر اثرات

سال پہلے کی بات ہے، میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور بیٹا پاس سیٹ پر بیٹھا میرے موبائل فون میں مشغول تھا، واٹس ایپ پر بڑے بھائی کا وائس میسج آیا کہ ایک مختصر سی تحریر لکھ کر بھیج دو جس میں میزبان دوستوں کے لیے شکریہ کا اظہار ہو۔ میں نے بیٹے سے کہا: چچا جان کو بتا دو کہ ہم راستے میں ہیں، گھر پہنچنے کے بعد لکھ کر بھیج دوں گا۔

کچھ دیر بعد گاڑی ہی میں بیٹے نے ایک مختصر سی تحریر پڑھ کر سنا دی اور پھر کہنے لگا اگر یہ پسند ہو تو میں چچا جان کو بھیج دیتا ہوں۔ تحریر اچھی تو تھی پر وہ اس طرح انسانی جذبات اور احساسات سے بھرپور نہیں تھی جس طرح کہ ایک انسان کی لکھی تحریر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ وہ بھائی کو پسند آئی اور نہ ہی مجھے، تاہم بیٹے کی حوصلہ افزائی کے لیے میں نے اس سے کہا: ٹھیک تو ہے لیکن یہ بتا کہ تم نے یہ کیسے لکھ دی؟ جبکہ تمہیں ابھی اردو لکھنا صحیح آتا بھی نہیں۔ بیٹے نے کہا: دراصل یہ میں نے ایک ایپ کی مدد سے لکھا ہے۔ بعد میں اس نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس(مصنوعی ذہانت) کے حوالے سے کچھ فلسفہ بھی بگھار دیا جس کو ہم نے عصری تعلیم نہ ہونے کے باوجود یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ عمر آپ کی مصنوعی ذہانت سے استفادہ کی نہیں ہے، بلکہ فی الحال تمہیں اپنی ذہانت کے استعمال کی ضرورت ہے، جب اچھے سے پڑھنا لکھنا آجائے اور خوب مہارت کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا بھی آجائے تو پھر کسی بھی ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال میں تم آزاد ہو۔ غور کرو جو ابھی تم نے ایپ کے ذریعہ لکھا، اس میں اور کسی دوسرے انسان سے لکھوانے میں کیا فرق ہے؟ اس کا غلط استعمال تو رہا ایک طرف فی الحال تو اس کا درست استعمال بھی آپ کے لیے نقصان دہ ہے۔

یہ اس وقت مجھ ان پڑھ کی ایک تخمینی رائے تھی لیکن اب پڑھے لکھے لوگ بھی مصنوعی ذہانت کے منفی پہلوؤں کو نوجوان نسل کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ ہم AIکے منفی پہلوؤں پر بات کرنے سے قبل قرآن کریم کی ان تین آیات کو ذکر کرنا چاہیں گے جن میںانسانی ذہانت کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے، تاکہ نوجوان نسل انسانوں کی نت نئی ایجادات سے ضرورت سے زیادہ متاثر اور مرعوب ہونے کی بجائے خالق حقیقی کی کاریگری میں غور و فکر کر سکے۔ سورہ اسرا کی آیت نمبر 70 میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے: یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں عطا کیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا فرمائی۔ یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ انسان اپنی منفرد ذہانت، عقل، سوچ وفکر اور شعور کی وجہ سے دوسری جاندار اور بے جان مخلوقات سے ممتاز ہے۔ سورہ تین کی آیت نمبر 4میں ارشاد ہے: ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ یہ آیت بھی کسی درجے میں براہِ راست انسانی ذہانت یا انسان کی منفرد سوچنے کی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، چنانچہ انسانی علوم (انتھروپولوجی) کے مطابق حسن تقویم کو دو نمایاں خصوصیات پر محمول کیا جا سکتا ہے، نمبر ایک انسانی جسم کا سیدھا قامت ہونا اور دوسرا انسانی دماغ کا نسبتاً بڑا حجم۔ ان دونوں میں انسانی دماغ کا حجم ہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جو اسے دیگر جانداروں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ حسن تقویم کی حقیقی معنویت انسان کی ذہانت، فکری عمل اور عقلی برتری میں مضمر ہے، جو انسانی ذہانت کی معراج کو ظاہر کرتی ہے اور یہی وہ اہم خصوصیت ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔

تیسری آیت نہ صرف انسانی ذہانت کی موجودی کی طرف اشارہ کرتی ہے، بلکہ اس کے اصل ماخذ اور فطرت کو بھی واضح کرتی ہے: ارشاد باری تعالی ہے:یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔ سو جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ سورہ ص، آیت 71۔ 72مذکورہ آیت میں ”ونفخت فِیہِ مِن روحِی” کی تعبیر بھی انسان کی فکری صلاحیت، اس کی ذہانت اور اس کے ثقافتی اور فکری نظام کو شامل ہے بلکہ اس میں وہ تمام عناصر آجاتے ہیں جو انسان کو صرف دیگر جانداروں سے ہی نہیں، فرشتوں سے بھی ممتاز کرتے ہیں اور چونکہ یہی خصوصیات حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے ممتاز کر رہی تھیں، اسی لیے انہیں آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انسان کی فکری برتری اسے ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی اعلی انسانی ذہانت ہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جس نے انسانی نسل کو دیگر جانداروں اور فرشتوں پر فوقیت دی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بھی انسانوں کو بار بار سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے جو دراصل انسانی ذہانت کے ایک بنیادی ستون کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر عالی دماغ انسان کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نہ نوازتا تو وہ کبھی بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور مشینیں ایجاد کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ اس کے برعکس مصنوعی ذہانت میں سوچنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخصوص کاموں کے لیے پروگرام کیا جاتا ہے جو پہلے سے طے شدہ اصولوں اور مخصوص ڈیٹا سیٹس کے ذریعے کام کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص غیر معمولی صلاحیتوں سے بھرپور خلاقِ عالم کی تخلیق کردہ سوچنے اور مطالعہ کے ذریعہ مسلسل ارتقا کی منازل طے کرنے والی ذہانت کو انسان کی تخلیق کردہ منجمد مصنوعی ذہانت کے تابع بنائے گا تو کسی وقت اس کی اپنی قدرتی صلاحیتیں بھی بانجھ پن کا شکار ہو جائیں گی۔ پھر اگر مصنوعی ذہانت کا استعمال اس حد تک بڑھ جائے کہ انسان کو اپنی ذاتی محنت، سوچ، تدبر اور غور و فکر سے دستبردار ہونا پڑے، جس کی طرف قرآن کریم اسے بار بار دعوت دیتا ہے تو یہ نہ صرف یہ کہ دماغی خلل کا باعث بنے گا بلکہ مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، خاص کر ایک طالب علم کے لکھنے پڑھنے اور مطالعہ کا اصل مقصد سوچنے، سیکھنے اور کسی موضوع کو گہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر اسے ہر سوال یا مضمون کے لیے فوراً تیار جواب مل جاتا ہو تو پھر وہ تعلیم کے روایتی طریقہ سے خود کو جوڑ کر غور و فکر کرنے کی کوشش کیونکر کر پائے گا؟!

معلومات تک رسائی کی حد تک مصنوعی ذہانت کے استعمال کو درست کہا جا سکتا ہے لیکن یہ استعمال بھی اگر وقت سے پہلے شروع ہوجائے تو یہ کسی بچے کے ہاتھ میں اسلحہ تھمانے کے مترادف ہوگا۔ اس کے فوائد بھی بہت ہوں گے لیکن اس کے نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کی مہارتوں میں کمی کا باعث بن رہی ہے کیونکہ اس پر زیادہ انحصار کرنے سے انسان سستی کا شکار ہو کر اس کی تخلیقی صلاحیتیں آہستہ آہستہ دم توڑ جاتی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ انسانی ذہانت کی بنیاد ترقی پذیر دماغی صلاحیت ہے، جو اپنے اندر مسلسل سیکھنے اور مختلف ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ حاصل کردہ علم کی مدد سے نئے مسائل حل کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ جیسے سیکھنے کی صلاحیت، سوچنا، اظہار کرنا، مسائل کو حل کرنا، فیصلے کرنا، سماجی تعامل، اور دیگر امور وغیرہ۔ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس ٹیکنالوجی کے درست استعمال پر توجہ دی جائے، تاکہ طلبا اس کو غیر ضروری یا تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
شرعی نقطہ نظر سے بھی اس حوالے سے بچوں کو یہ آگاہی دینا ضروری ہے کہ یہ صرف ایک وسیلہ ہے اور وسیلے کا حکم مقاصد کے تابع ہوتا ہے، لہٰذا مباح امور میں اس کا استعمال جائز اور حرام کاموں میں ناجائز ہوگا، چنانچہ جس طرح امتحانات میں کسی دوست سے مدد لینا فریب اور دھوکا ہے، اسی طرح کسی ٹیکنالوجی کے ذریعے نقل کرنا بھی دھوکا ہی ہے جس سے ہماری شریعت مطہرہ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ بہرحال جب یہ ٹیکنالوجی اب ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے تو اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ طلبا کے سامنے واضح کرنا ضروری ہے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اس کے فوائد سے مستفید اور نقصانات سے بچ سکیں۔