ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے؟

زندگی ایک راز ہے، ایک معما، ایک مسافرت، جو ہمیں ایک منزل کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم آنکھ کھولتے ہیں، کچھ پل جیتے ہیں، خوشی اور غم کے تجربات سمیٹتے ہیں اور پھر ایک دن خاموشی سے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، لیکن دنیا میں آنے والا ہر انسان ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔

میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ کہاںجانا ہے؟ کیا زندگی صرف کمانے، کھانے، بچے پیدا کرنے اور ایک خاص وقت پر دنیا سے چلے جانے کا نام ہے یا اس سے بھی آگے کچھ ہے؟ یہ سوالات ہمیں اپنی حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور یہ سوالات ہر باشعور انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں اور جب تک ان کے جوابات نہ مل جائیں، زندگی بے معنی ہے۔ انسان محض گوشت پوست کا بنا ہوا ایک جاندار نہیں، بلکہ شعور رکھنے والی مخلوق ہے، جسے خالقِ کائنات نے کسی خاص مقصد کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ کائنات کوئی بے مقصد تماشا نہیں اور نہ ہی انسان کی تخلیق محض کھانے، پینے اور افزائشِ نسل کیلئے ہوئی ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جسے زمین پر خلافت عطا کی گئی، جو عقل، شعور، علم اور بصیرت سے آراستہ ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد بہت بڑا اور عظیم ہے۔
ہم صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ نہیں، نہ ہی صرف ایک جسمانی مشین ہیں جو کھانے، سونے، کام کرنے اور مرنے کے لیے بنی ہو۔ ہمارے اندر ایک روح ہے، ایک شعور ہے، ایک احساس ہے، جو ہمیں کائنات کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ ہماری شناخت کسی عارضی چیز میں محدود نہیں ہو سکتی۔ہم اپنی قوم، زبان، رنگ، نسل، علاقے، یا خاندان سے پہچانے جا سکتے ہیں، لیکن ہماری اصل پہچان یہ نہیں۔ ہماری حقیقی شناخت ہمارے اعمال، ہماری سوچ اور ہمارے مقصد سے ہے۔ ہم وہی ہیں جو ہم سوچتے ہیں، ہم وہی ہیں، جو ہم کرتے ہیں۔ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم امانت دار ہیں، جنہیں زمین پر ایک خاص ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ہم مسافر ہیں، جنہیں ایک منزل کی طرف بڑھنا ہے۔

زندگی کا مقصد صرف جینا، کھانا، کمانا اور مر جانا نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ زندگی ایک امتحان ہے، ایک موقع ہے، ایک موقع اپنے آپ کو ثابت کرنے کا اور اس کائنات میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا ہے۔ دنیا کی ہر چیز ایک خاص ترتیب کے تحت چل رہی ہے، کوئی چیز بے مقصد نہیں تو پھر انسان کیسے بے مقصد ہو سکتا ہے؟ ہم ایک مشن کے تحت دنیا میں آئے ہیں اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو پہچان کر ان پر عمل کیا تو ہماری زندگی بامقصد بن سکتی ہے۔ انسان محض مٹی کا پتلا نہیں، نہ ہی ایک حیوان کی طرح صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آیا ہے۔ وہ شعور و ادراک، عقل و فہم اور جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے۔ اس کے اندر سوچنے، پرکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کی طاقت ہے، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
اگر دنیا میں ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے تو ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری اپنی پہچان کرنا ہے کہ ہم کون ہوں،ہماری صلاحیتیں کیا ہیں، ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور ہم کس طرح ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی عقل، اپنے جذبات اور اپنے خیالات کو کسی بڑے مقصد کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ ہم دنیا میں اکیلے نہیں، بلکہ سماج کا حصہ ہیں۔ہمارا جینا صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اگر ہماری زندگی کسی کے لیے آسانی، روشنی، یا خوشی کا سبب نہیں بن رہی تو ہم ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم دنیا میں ایک خالق کے حکم سے آئے ہیں، جو ہمیں تخلیق کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ یہ زندگی آزمائش کے لیے ہے، جہاں ہمارے اعمال کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے اور ہمیں آخرت میں اس کا حساب دینا ہوگا۔

زندگی ایک امتحان ہے۔ایک بڑی حکمت کے تحت انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فکری، سماجی، اخلاقی اور روحانی ذمہ داریاں سونپی ہیں، تاکہ ہم اپنی ذات کی بہتری کے ساتھ ساتھ دنیا میں بہتری کے لیے بھی کام کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا یہاں آنا ایک مشن ہے اور ہمیں اس مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنا ہوگی۔ دنیا میں بہتری لانا ہمارا فرض ہے اور خاص طور پر باشعور اور باصلاحیت انسانوں پر یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس دنیا میں ایک بڑے مقصد کے لیے آئے ہیں۔ ایک اچھا انسان وہ نہیں جو صرف خود اچھا ہو، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کے لیے بھی بھلائی چاہے اور عملی طور پر بہتری کے لیے کام کرے۔
کسی بھی بڑی تبدیلی کا آغاز خود سے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بہتر ہو تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بہتر بنانا ہوگا۔ اپنی ذات کی پہچان، اپنی کمزوریوں کو دور کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں مثبت انداز میں استعمال کرنا ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔ اگر ہر شخص صرف اپنی اصلاح پر کام کر لے تو آدھا معاشرتی مسئلہ خودبخود حل ہو جائے۔ اخلاق کسی بھی معاشرے کی روح ہیں۔ اگر ہمارا کردار مضبوط ہوگا، اگر ہم دیانت دار، سچائی پر قائم اور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے ہیں تو ہمارا وجود دنیا کیلئے ایک مثبت قوت بنے گا۔ جھوٹ نہ بولیں، دھوکا نہ دیں، وقت کی پابندی کریں، دوسروں کی مدد کریں اور خود کو بہتر بنائیں۔ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو جہالت، غربت اور بدعنوانی کو ختم کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے پاس وسائل ہیں تو ہم کسی بچے کی تعلیم میں مدد کریں۔ اگر وسائل نہیں تو ہم اپنے علم کو دوسروں تک پہنچائیں، پڑھائیں اور شعور پیدا کریں۔ ہماری زندگی کا ہر پہلو سچائی پر مبنی ہونا چاہیے۔ جھوٹ، دھوکا اور بے ایمانی ہمیں وقتی فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن ہماری حقیقی شناخت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

زندگی رکنے کا نہیں، سیکھنے اور آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں، ہمیں ہر روز کچھ نیا سیکھنا چاہیے اور اپنی فکری سطح کو بلند کرنا چاہیے۔ زندگی میں مشکلات آئیں گی، ناکامیاں ملیں گی، لوگ تکلیف بھی دیں گے، لیکن ہمیں ہمیشہ صبر اور نرمی سے کام لینا چاہیے۔ سخت رویہ مسائل کو بڑھاتا ہے، جبکہ نرمی دلوں کو جیتتی ہے۔ اگر ہم ہر لمحے کو بامقصد گزاریں، وقت کی قدر کریں اور اپنے کاموں میں سنجیدگی اور محنت کو شامل کریں تو ہماری زندگی نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کیلئے بھی مفید ثابت ہوگی۔ اگر ہم کسی کیلئے آسانی پیدا کر سکتے ہیں، کسی کی مدد کر سکتے ہیں، کسی کے چہرے پر خوشی لا سکتے ہیں تو ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ زندگی کا سب سے بڑا حسن دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے بڑی تبدیلی ضروری نہیں، چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی ایک بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔