اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی، 600 فلسطینی قیدیوں کی رہائی معطل ہوگئی (ابوصوفیہ چترالی)

ہفتے کے روز 6 اسرائیلی قیدیوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں نے رہا کر دیا۔ اس کے بدلے میں معاہدے کے مطابق اسی شام 6 سو سے زاید فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا، لیکن عین موقع پر اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کی اس ساتویں قسط کی رہائی ملتوی کرنے کا فیصلہ کردیا۔ اس فیصلے کی وجہ حماس کی خلاف ورزیاں بتائی گئی ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک اس بات کی ضمانت نہیں دی جاتی کہ ہمارے قیدیوں کو ’ذلت آمیز‘ شرائط کے بغیر رہا کیا جائے گا۔ دفتر نے یہ بھی کہا کہ ’حماس قیدیوں کی عزت کو جان بوجھ کر مجروح کرتی ہے اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔‘ اسرائیلی میڈیا کے مطابق فلسطینی قیدیوں کو بسوں میں بٹھایا گیا تھا، پھر انہیں واپس جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی سلسلے میں ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے ای نیوز ویب سائٹ ’اکس یوس‘ نے خبر دی کہ قیدیوں کی رہائی ملتوی کرنے کا فیصلہ وزیراعظم نیتن یاہو کے زیرصدارت ہفتے کی شام کو ہونے والی دو سیکورٹی میٹنگز کے بعد کیا گیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ سیکورٹی اداروں کے رہنماوں نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی تجویز دی تھی، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے غزہ میں گرفتار شدگان کی لاشوں کی بازیابی پر اثر پڑسکتا ہے۔ اسرائیلی عہدیدار نے مزید بتایا کہ پہلی میٹنگ کے اختتام پر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس فیصلے میں دوسری میٹنگ کے دوران تبدیلی آئی، جس میں صرف نیتن یاہو، وزیر دفاع یسرائیل کاتس، وزیر خارجہ گدعون ساعر اور وزیر خزانہ بتسلئیل سموتریچ شریک تھے۔
دوسری جانب فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ اس کی ٹیم کو قدس کے ہداسا اسپتال سے اسیر زخمی کاظم زواہرة کی رہائی منسوخ ہونے کے بعد واپس جانا پڑا۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے ہفتے کے روز بتایا کہ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا فیصلہ حما س کی طرف سے شری بیباس کی جگہ فلسطینی لاش بھیجنے کے جواب میں کیا ہے۔ اس سے پہلے حماس نے ہفتے کے روز غزہ میں 6 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اسی دن شام تک تقریباً 600 سے زاید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا، مگر اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ تل ابیب نے اس عمل کو وزیراعظم نیتن یاہو کی زیرصدارت سیکورٹی میٹنگ کے بعد ملتوی کردیا اور یہ عمل ممکنہ طور پر نصف شب کے قریب شروع ہوگا۔ لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ قیدیوں کے استقبال کے لیے آنے والے فلسطینی رات گئے تک انتظار کرکے ناامید لوٹ گئے اور فلسطینیوں کی خوشیوں پر پانی پھر گیا۔
اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر پر ردعمل دیتے ہوئے حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے کہا کہ ’ساتویں قسط کے فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں معاہدے کے مطابق عمل نہ کرنا اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی ایک اور صریح خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حماس نے تبادلے کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ثالثوں کی کوششوں کا مثبت جواب دیا، جنگی مجرم نیتن یاہو وقت ضائع کرنے اور تاخیری حربے اختیار کر رہا ہے اور قیدیوں کی رہائی میں مزید تاخیر کر رہا ہے۔‘ القانوع نے ثالثوں اور معاہدے کے ضامنین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباو ڈالیں تاکہ وہ معاہدے کی شرائط کو بغیر کسی مزید تاخیر یا چالاکیوں کے پورا کرے۔اسی سلسلے میں شہدائ، زخمیوں اور قیدیوں کے دفتر کے میڈیا ذمہ دار ناہد الفاخوری نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اور معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی ہیں۔ اسرائیل نے رہا ہونے والے قیدیوں پر تشدد بھی کیا اور کچھ قیدیوں کے ناموں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کی، جنہیں رہائی کے لیے طے کیا گیا تھا۔ دوسری طرف فلسطینی قیدیوں کی انجمن (نادی الاسیر) نے اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی ساتویں قسط کی رہائی میں تاخیر کو ’منظم دہشت گردی‘ قرار دیا۔
٭سیکورٹی اجلاس: اِسی دوران اسرائیلی نشریاتی ادارے نے کہا کہ ہفتے کی شام ہونے والے سیکورٹی اجلاس میں جنگ بندی کی مدت میں توسیع کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد اور غزہ کے جنوبی علاقے میں فلادلفیا محاذ (صلاح الدین محور) سے انخلا کے ساتھ ساتھ اسرائیلی قیدیوں کی باقی لاشوں کی بازیابی کے بارے میں بھی گفت وشنید کی گئی۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن کے حوالے سے کہا کہ یہ شک و شبہات ہیں کہ جنگ بندی کی مدت کو بغیر کسی پیشرفت کے بڑھایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس سے حماس کو ایک نیا موقع ملے گا۔بعدازاں نیتن یاہو کے دفتر سے یہ خبر جاری کی گئی کہ ساتویں قسط کے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اس وقت تک معطل رہے گی جب تک مزاحمت کار اسرائیلی قیدیوں کی اگلی کھیپ کو باعزت طریقے سے رہا نہیں کریں گے۔درایں اثنا امریکی وزیر خارجہ بھڑکیاں مارنے لگا کہ حماس کو سارے اسرائیلی قیدی فوراً رہا کرنے ہوں گے، ورنہ دوبارہ جنگ شروع ہوگی۔
دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کے خاندانوں کی تنظیم نے کہا کہ نیتن یاہو تبادلے کے معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے تاکہ وہ اپنے اتحادیوں کو خوش کر سکے اور اس کے بدلے میں قیدیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباو ڈالیں تاکہ تمام قیدیوں کو ایک ہی قسط میں رہا کیا جائے۔ اس دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے اب تک 192 قیدیوں کو بازیاب کرایا ہے، جن میں سے 147 زندہ ہیں اور 45 فوت ہو چکے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ابھی بھی حما س کے قبضے میں 63 قیدی ہیں اور اسرائیلی حکومت تمام زندہ قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے پاس واپس لانے اور فوت شدگان کو عزت کے ساتھ دفن کرنے کے لیے پوری قوت سے کام جاری رکھے گی۔
عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے بتایا ہے کہ تخمینے کے مطابق حماس پہلے مرحلے کو اسی صورت بڑھانے پر راضی ہوسکتی ہے کہ اس کے بدلے میں اسرائیل کچھ رعایتیں دے، جن میں ہر قیدی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ، امداد میں اضافہ، عارضی رہائش اور بھاری مشینری کی فراہمی شامل ہو سکتی ہے۔ اخبار نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں دوسرے مرحلے پر معاہدہ ہونے کے امکانات کم ہیں اور اسرائیل دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی تیاری کر رہا ہے، حالانکہ اس کے مقام اور نوعیت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے اسٹیفن وٹکوف نے کہا کہ وہ اس ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے تاکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کریں۔ اسرائیل ٹوڈے نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ 600 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو روکنے کا فیصلہ ”حماس کے ساتھ کھیل کے قواعد کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش“ ہے۔ تاہم ذرائع نے یہ بھی کہا کہ سیاسی قیادت کو حماس کے موقف کا اندازہ کرنے میں ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان ہی ذرائع نے کہا کہ اگر حماس نے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تو جنگ دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس دوران اسرائیلی جنرل ایال زامیر آرمی چیف کا عہدہ سنبھالیں گے۔
اسرائیلی اخبار کی ویب سائٹ معاریف نے حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اسرائیل ضمانتیں چاہتا ہے کہ آئندہ قیدیوں کی رہائی حماس کی جانب سے کسی قسم کے ”شو یا توہین آمیز تقاریب“ کے بغیر ہوگی۔ اخبار کے مطابق ایک وزیر نے تجویز دی کہ اسرائیل کو اس مرحلے میں چار لاشوں کے علاوہ ایک زندہ اسرائیلی کو بھی رہا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ معاہدے کے پہلے مرحلے کو مکمل کیا جا سکے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان دو اسرائیلیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے جنہیں ہفتے کو حماس کی قسام بریگیڈ نے ویڈیو میں دکھایا تھا، ان کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو رہائی کیا جائے۔ جبکہ مستعفی دہشت گرد وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے سیاسی رہنما ایتمار بن غفیر نے کہا کہ حماس کے اسیران کو دوسرے قیدیوں کی رہائی کی تقریب دیکھنے پر مجبور کرنا ایک نفسیاتی عذاب ہے جو اسرائیلی عوام کے شعور کو نشانہ بناتا ہے۔

قسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی سے ویڈیوز نشر کیں جن میں دو اسرائیلی قیدی دوسرے قیدیوں کی رہائی کی تقریب دیکھتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور وہ نیتن یاہو سے معاہدے کو مکمل کرنے اور تمام قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔