پاکستان معاشی میدان میں بھارت کو پیچھے دھکیل سکتا ہے!

وزیرِاعظم محمد شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان میں کینسر اسپتال اور راجن پور میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر محنت کر کے بھارت کو پیچھے نہ چھوڑا تو میرا نام شہباز شریف نہیں، عمران کہتا تھا میں پیسے مانگنے بیرون ملک جاتا ہوں، آپ کیا بانٹنے جاتے تھے؟ ملکی بربادی کیلئے اسلام آباد پر چڑھائی کی جاتی تھی، پاکستان قرضوں کے ساتھ ترقی نہیں کرے گا، دعا کریں پاکستان کے قرضے ختم ہو جائیں، خارجی طاقتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کیلئے دن رات سازشیں کی جاتی رہی ہیں، ہڑتالوں اور دھرنوں سے ملک کو نقصان پہنچایا گیا، جب تک جان میں جان ہے پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے، وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کا وسیع نیٹ ورک پھیلا کر جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام علاقوں کی یکساں ترقی و خوشحالی کیلئے پرعزم ہے، ہم پاکستان کی تقدیر بدلیں گے، پاکستان ترقی کرے گا۔

چاروں طرف چھائے ہوئے مسائل اور مشکلات کے اندھیرے میں وزیر اعظم کا یہ بیان کسی قدر حوصلہ افزاہے۔ ان کے الفاظ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے پرعزم ہیں ۔ اپنے پر جوش خطاب میں انہوں نے پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے ساتھ معاشی مقابلے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان قرضوں پر انحصار کر کے ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک خودمختار اور مستحکم معیشت ہی کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے اور اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو اسے سیاسی استحکام اور معاشی خود کفالت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبے نہ صرف ان علاقوں کے عوام کی حالت بہتر بنائیں گے بلکہ ملک کے مجموعی ترقی کے اہداف میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ حکومت کو ان اقدامات کو مستقل بنیادوں پر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھان کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وقتی جوش میں اقدامات شروع کئے جائیں اور پھر جلد ہی ان سے ہاتھ اٹھا لیں، آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کی یہ پالیسی بھی ملکی تباہی کی ایک بڑی وجہ ہے، اس سے اوپر اٹھ کر مستقل مزاجی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ بھارت پاکستان کا روایتی حریف ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اسلحے کی دوڑ میں الجھنے کی بجائے اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی ترقی میں مقابلہ کریں تو یہ نہ صرف ان کے عوام بلکہ پورے خطے کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔

یہ واضح ہے کہ عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوا دے کر اپنا اسلحہ فروخت کرتی ہیں اور ان کی معیشتوں کو کمزور کرتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو اسلحے پر بے تحاشہ اخراجات کرنے کی بجائے تعلیم، صحت، صنعت اور زراعت جیسے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری پر کچھ توجہ مبذول کرنی چاہیے تاکہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے اور دونوں ممالک ایک مستحکم اور خوشحال معیشت کی جانب بڑھ سکیں۔ اگر پاکستان کو بھارت پر معاشی برتری حاصل کرنی ہے تو اسے اپنی برآمدات بڑھانے، صنعتی ترقی کے فروغ اور زرعی اصلاحات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارتی روابط کو فروغ دینا بھی سود مند ثابت ہو سکتا ہے، جس کیلئے پاکستان کے پاس وسطی ایشیا کا وسیع میدان خالی موجود ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکمرانی کا انداز ہمیشہ سے تیز رفتاری اور عملی اقدامات پر مبنی رہا ہے، جس کی مثال ماضی میں پنجاب میں ان کے ترقیاتی منصوبے ہیں۔ چین جیسے دوست ملک نے بھی ان کی کارکردگی کو ”شہباز اسپیڈ” کا نام دیا، جو بہر حال ان کی انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان بدترین معاشی بحرانوں سے دوچار رہا، تاہم یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالا اور معاشی استحکام کی طرف گامزن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انہیں سیاسی استحکام اور تعاون حاصل ہو تو وہ پاکستان کو بھارت سے معاشی طور پر آگے لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو برآمدی شعبے میں بہتری لانے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دینے، اور انفراسٹرکچر کے جدید منصوبے مکمل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ مزید برآں کرپشن کے خاتمے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور توانائی کے مسائل کے حل کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی استحکام کی کمی بھی معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ایک مخصوص سیاسی جماعت نے بدترین انتشار کو ہوا دے رکھا ہے، جس سے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوئیں۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن کی اہمیت مسلمہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ اس سلسلے میں گرینڈ ڈائیلاگ اور وسیع مکالمے کے ذریعے سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انتشار اور ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں کو ملکی مفاد میں مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک کے اجتماعی مفاد کو ذاتی اور گروہی مفادات پر ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک بہتر سیاسی ماحول پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی استحکام کے بغیر نہ تو معاشی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی سماجی بہبود کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام کو اولین ترجیح دی جائے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک ایسا مکالمہ ہو جو قومی مفاد کے تحت ہو۔ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کو داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا بھی ہے، جن سے نمٹنے کے لیے قومی اتحاد ضروری ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کا ترقیاتی وژن پاکستان کے لیے امید کی ایک کرن ہے اور اگر سیاسی ماحول اس وژن کی تکمیل میں معاونت کرے تو پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک معاشی قوت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے، ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرے، اور زراعت کے جدید طریقے متعارف کرائے تاکہ ملک کی معیشت مضبوط ہو سکے۔ پاکستان کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترقیاتی منصوبے بنانے ہوں گے تاکہ وہ نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی اہمیت منوا سکے۔