بعض واقعات کچھ یوں مسحور کر دیتے ہیں کہ آپ زندگی بھر ان کے سحر سے نہیں نکل پاتے۔ دن، مہینے، سال حتیٰ کہ برسوں گزر جاتے ہیں مگر ان کا نقش ان مٹ رہتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کئی ایسے واقعات ہوئے۔ ایک خاص پہلو والے دو تین واقعات آج کے کالم میں لکھ رہا ہوں، ایسے جو حیران کر دینے والے ہیں۔
دس بارہ سال پہلے کی بات ہے، مجھے ایک دن باہر سے کال آئی، ایک پاکستانی تھے، وہ کسی چیریٹی تنظیم کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ ان سے گپ شپ ہوتی رہی، پھر انہوں نے اپنی کتھا سنائی جو بڑی دلچسپ اور چشم کشا تھی۔ ان کا تعلق کراچی سے تھا، ایم بی اے کر رکھا تھا، کراچی میں حالات زیادہ سازگار نہیں تھے توکسی طرح پیسے جمع کر کے باہر نکل گئے۔ یوکرائن میں ان کے دوست رہتے تھے، وہاں چلے گئے۔ کسی طرح کچھ دن گزر گئے، پھر یہ حالت ہوگئی کہ کچھ بھی جیب میں نہیں تھا۔ دوست کے ساتھ رہ رہے تھے تو کھانا وہ کھلا دیتا۔
ان صاحب کے بقول ایک رات انہوں نے بیٹھ کر اللہ سے عہد کیا کہ آج کے بعد جو بھی کمائی ہوگی، اس کا تیسرا حصہ یعنی تینتیس فیصد آپ کے نام پر چیریٹی کروں گا۔ کہنے لگا کہ میں اس قدر سیریس تھا کہ میں نے باقاعدہ یہ تحریر لکھ ڈالی اور دل سے کمٹمنٹ کر لی۔ اس کے بعد سو گیا۔ اگلے روز اچانک کہیں سے کام مل گیا، چند دن بعد کہیں جاب آفر ہوئی، مستقل آمدنی کی سبیل بن گئی۔ انہوں نے پہلے مہینے جو تنخواہ ملی، اسے تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ چیریٹی کے لئے مختص کر دیا۔
ان صاحب نے یہی روٹین جاری رکھی۔ تین چارماہ بعد ایک اور پاکستانی دوست نے تجویز دی کہ مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ یوں چھوٹے لیول پر کاروبار شروع کر دیا۔ کام چل نکلا تو اسے بڑھا لیا، پہلے ایک اور پھر دو تین دوسرے کام بھی شروع کر دیے۔ چند برسوں میں یہ صورتحال ہوگئی کہ وہی صاحب جنہوں نے خالی جیب اللہ کے ساتھ عہد کیا تھا، ملک کے دوسری بڑی فروٹ جوس کمپنی کیمالک بن گئے (یہ تب کی بات ہے، اب تو یوکرائن ہی اجڑ چکا)۔ کئی سو ایکڑ اراضی بھی خرید لی، بعض دیگر کاروباروں میں بھی انویسٹمنٹ یا شراکت چل رہی۔ میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ ان تمام مراحل میں آپ نے اپنی کمٹمنٹ نبھائی۔ وہ کہنے لگے سوفی صد نبھائی۔ کہا کہ میں ہر مہینے پوری ایمانداری سے سب حساب کتاب کرتا ہوں، اخراجات نکال کر جو منافع ہوتا ہے اس کا ایک حصہ الگ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ پھر ہنس کر کہا کہ اب تو یہ اچھی بھلی مشقت ہوگئی ہے، اتنی جگہوں سے آمدنی ہو رہی ہے، ان سب کا حساب کتاب رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں کچھ غلطی نہ ہو جائے۔ یہ کر کے مگر سکون ملتا ہے اور یہ اطمینان بھی کہ اپنا وعدہ نبھا رہا ہوں۔
بعد میں ان صاحب سے رابطہ نہیں رہا، میں نے وہ اخبار چھوڑ دیا۔ میری ایک بری عادت ہے کہ جس اخبار میں کام کروں، انہی کا دیا موبائل فون اور سم استعمال کرتا ہوں، مجھ سے دو دو فون مینیج نہیں ہوتے تو وہی آفیشل سم ہی استعمال کرتا رہتا ہوں۔ پھر جب وہ ادارہ چھوٹ جائے تو ظاہر ہے سم واپس کرنا پڑتی ہے یا بلاک ہو جاتی ہے۔ نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سے پرانے کانٹیکٹس غائب ہو جاتے ہیں۔
ان صاحب سے کئی سال بعد فیس بک پر رابطہ ہوا۔ پتہ چلا کہ کچھ مشکل وقت انہوں نے گزارا، ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کے باعث کئی مہینے بستر پر رہنا پڑا، اس سے بزنس پر بھی فرق پڑا۔ بتانے لگے کہ اوپر نیچے کاروبار میں چلتا ہے، رزق میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے، یہ سب قدرت کے اصول ہیں مگر میں نے اپنی روٹین کبھی نہیں چھوڑی۔ اب خاصے عرصے سے ان صاحب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ یوکرائن جنگ کے بعد ویسے بھی بہت کچھ بدل گیا ہے، بہت سی اموات ہوئیں اور بے شمار لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
یہ واقعہ میں نے کئی سال پہلے اپنے کالم میں لکھا، ایک آدھ بار بعد میں حوالہ بھی دیا۔ یہ کالم چھپنے کے دو چار سال بعد ایک بار لاہور سے بذریعہ جی ٹی روڈ اسلام آباد جاتے ہوئے جہلم رکنا ہوا۔ ایک ہم سفر کے بہت قریبی دوست اور عزیز نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ کھانے کے بعد قہوہ پیتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ میزبان نے مجھے متوجہ کیا اور کہا کہ آپ کے ایک کالم نے میری زندگی بدل دی تھی۔ پوچھنے پر بتانے لگے کہ میں مرچنٹ نیوی میں تھا، جہازوں پر سفر کرتے زندگی گزر رہی تھی، دنیا بھر گھومی۔ ایک دن انٹرنیٹ پر آپ کا وہ کالم پڑھا، کسی دوست نے واٹس ایپ کیا تھا۔ کالم پڑھنے کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے مرچنٹ نیوی چھوڑ کر وطن واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے ذہن میں اپنی استطاعت اور ہمت کے مطابق ایک خاص تناسب طے کر وہی عہد رب کے ساتھ کیا اور یہاں کام شروع کر دیا۔
میں نے پوچھا کہ پھر کیا ریسپانس ملا؟ کہنے لگے کہ میرا وہ اکائونٹ کبھی خالی نہیں ہوا جس میں چیریٹی کے پیسے رکھتا ہوں۔ اس کی برکت سے مجموعی آمدن بھی برکت والی اور کشادہ ہے۔
تیسرا واقعہ اسی اخبار کا تھا جہاں وہ کالم لکھا تھا۔ وہاں دفتر کے ساتھ موٹرسائیکل سپئیر پارٹس کی دکان کھلی، چند ہی ہفتوں میں بے تحاشا رش ہوگیا۔ تب میرے پاس بھی تب بائیک ہوا کرتی تھی، کوئی کام وام ہوتا تو وہاں لے جاتا۔ میں حیران ہوتا کہ اتنا جلد کام کیسے چل نکلا ہے، ایک دکان سے دو تین دکانیں ہوچکیں، ، کئی مکنیک کام میں جتے ہوتے ہیں۔ دکان مالک خوش اخلاق آدمی تھے۔ ایک روز ان سے ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے کسی نے یہ گر بتایا تھا کہ اپنی کمائی میں سے اللہ کا حصہ رکھ لو، جتنا حوصلہ ہو۔ میں نے پانچ فیصد رکھ لیا اور پھر روزانہ کی انکم کا حساب کر کے پانچ فیصد الگ کر لیتا ہوں۔ یہ سب اسی کی برکت ہے۔
آخری واقعہ ہمارے ایک سینئر صحافی اور اینکر کا ہے۔ نام نہیں بتا سکتا کہ اجازت نہیں۔ انہوں نے کہیں وہ کالم پڑھا اور اپنے طور پر ایک بڑی کمٹمنٹ کر لی۔ ان کے اپنے کہنے کے مطابق تب سے کشادگی ایسی ہوئی کہ رزق سنبھالے نہیں جاتا۔ جب انہوں نے یہ واقعہ شیئر کیا تو وہ ایک اچھے ادارے میں ذمہ دار حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ تب بھی ماشاء اللہ بہت اچھی سیلری تھی۔ بعد میں وہ ایک اور ادارے میں چلے گئے اور ماہانہ آمدنی ڈبل تو نہیں ہوئی مگر اس میں لاکھوں کا اضافہ ہوگیا۔ وہ صاحب نہایت باقاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ جو تناسب انہوں نے طے کر رکھا تھا، اس حساب سے الگ کرتے اور چیریٹی کر دیتے ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ وہ کئی اچھے چیریٹی اداروں کو باقاعدگی سے عطیات دیتے ہیں۔
کالم مکمل نہیں ہوگا، اگر اس کا دوسرا پہلو بھی بیان نہ کیا جائے۔ ہمارے ایک نوجوان صحافی دوست نے جو فیس بک پر بھی ایکٹو ہیں، لکھتے رہتے ہیں، ایک کام شروع کیا اور چونکہ وہ میرے ریڈر تھے، ان کے ذہن میں یہ بات تھی۔ وہی فارمولا انہوں نے آزمایا اور ایک ایگریمنٹ کیا۔ ان کا اپنا کہنا ہے کہ دو تین دن کچھ نہیں ہوا اور پھر ایک دن اچانک سے ٹھیک ٹھاک سیل ہوگئی، ایسی کہ میں نے سوچا کہ جادوئی فارمولا کام کرنے لگا ہے، مگر اس کے بعد پھر سب ٹھپ رہا۔ حتیٰ کہ کچھ عرصے بعد ہم نے وہ دکان ہی چھوڑ دی، کام نہیں چل پایا۔ انہوں نے اس پر فیس بک پوسٹ لگائی اور اس میں لکھا، میں نے نتیجہ نکالا کہ یہ عہد ضرور کریں، کمٹمنٹ بھی نبھائیں مگر کاروبار کے دیگر تقاضے بھی نبھائیں۔ درست جگہ دکان لیں، کاروبار سے پہلے اچھی فزیبلٹی بنائیں، پراڈکٹ، اس کی ڈیمانڈ، سپلائی وغیرہ سب ٹھیک ہو۔ اپنی طرف سے سب کچھ بہترین اور اچھا کریں اور پھر یہ عہد کریں تو خوش قسمتی کا عنصر ساتھ شامل ہوجائے گا۔ پھر اسی پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ شاید ہم صبر اور حوصلہ نہ کر سکے، ممکن ہے کچھ عرصہ برداشت کر جاتے تو شاید کام چل نکلتا۔ وجہ جو بھی ہو، بہرحال اس سب کچھ کے روشن پہلوئوں کے ساتھ ایک پہلو یہ بھی علم میں آیا تو اسے لکھنا ضروری سمجھا۔