دشمن کی صفوں میں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملے ابھی سات سال ہی گزرے تھے۔ محرم کا مہینہ شروع ہوا چاہتا تھا۔ چند دنوں کے وقفوں سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کر چکے تھے، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہی کیا کم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ہرقسم کی سودے بازی مسترد کردی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ قبیلہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے سارے مسلم و غیر مسلم افراد نے مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا عہد کرلیا تھا۔

قریش مکہ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دن بہ دن مقبولیت کی نئی منزلیں طے کررہے ہیں، آپ کے ماننے والوں روز بہ روز بڑھ رہے ہیں، تو وہ ایک دن جمع ہوکر بیٹھے۔ فیصلہ کیا کہ جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے نہیں کردیا جاتا، نہ ہی بنوہاشم، بنوعبدمناف اور بنوعبدالمطلب سے لین دین کریں گے، نہ ان میں رشتے ہوں گے، نہ ان سے گفت و شنید ہوگی، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ محفل آرائی ہوگی۔ یہ فیصلہ بغیض بن عامر بن ہاشم نے ایک صحیفے پر لکھا اور اس صحیفے کو خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ابولہب کے علاوہ بنی ہاشم، بنی عبدالمطلب اور بنی عبدمناف کے سارے مسلم و غیرمسلم افراد شعب ابی طالب میں محبوس ہوگئے۔ محرم کی چاند رات طلوع ہوئی اور خدا کا نام لینے کی پاداش میں آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ ہرنیا دن مشکلات لیے طلوع ہوتا۔ غلہ اور سامان ختم ہوگیا۔ مکہ میں جو کچھ آتا، مشرکین خرید لیتے۔ محصور ہونے والوں کو فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ پتے اور چمڑے کھاتے۔ فاقہ کشی اتنی بڑھی کہ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کی آوازیں اور کمزور خواتین کی آہیں گھاٹی سے باہر تک سنائی پڑتیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام اپنی پھوپھی کے لیے چوری چھپے گندم بھجوا دیتے۔ ابوجہل کو بھنک پڑگئی اور آڑے آگیا۔ ابوالبختری نے مداخلت کی تو بھجوانے دیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شعب ابی طالب میں زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔ ایک بار قضائے حاجت کے لیے گیا۔ کوئی چیز زمین پر کھڑکھڑاتی محسوس ہوئی۔ اٹھا کر دیکھا تو اونٹ کی کھال کا ایک سوکھا ہوا ٹکڑا تھا۔ میں نے اسے لیا، جاکر دھویا، پھر اسے جلایا، پھر پانی سے دھویا اور تین دن تک اسے کھاکر گزارے۔ ایک طرف بھوک نے تن بدن کھانا شروع کردیا اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو بھی خطرات لاحق تھے۔ ابوطالب اپنے پیارے بھتیجے کو اکیلا سونے نہیں دیتے۔ اپنے ساتھ سلاتے اور حضور کے بستر پر اپنے کسی بھائی یا بیٹے کو سلا دیتے۔

اس مشکل حالت میں ہشام بن عمرو العامری اونٹ پر کھانا لادتا اور اس کی لگام پکڑ کر شعب کے کنارے پر پہنچ جاتا۔ پھر اونٹ کی لگام چھوڑ دیتا تاکہ خود ہی چلتا ہوا شعب کے اندر چلاجائے۔ اللہ نے اس مشکل وقت میں زہیر بن ابوامیہ کا دل نرم کیا، وہ بولا: اے مکہ والو! کیا ہم کھاتے، پیتے اور پہنتے اوڑھتے رہیں اور بنوہاشم ہماری آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوتے رہیں؟! اللہ کی قسم میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا، جب تک یہ صحیفہ چاک نہیں کیا جاتا۔ اصل محرک: ہشام بن عمرو بنے۔ انہوں نے ساتھ زہیر بن ابوامیہ کو ملایا۔ پھر یہ سب مطعم بن عدی کے پاس گئے۔ تینوں نے مل کر ابوالبختری کو قائل کیا۔ یوں اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے غیرمسلم جمع ہوئے اور مسلمانوں کے کٹھن دن کٹ گئے۔ (سیرت ابن ہشام: 246/1) (عیون الاثر، ابن سید الناس، 149/1) (الرحیق المختوم: 790)

سیرت کا یہ صفحہ پڑھنے سے پتہ چلا کہ کبھی پرائے بھی اپنوں سے بڑھ کر کام آجاتے ہیں۔ کبھی دشمن کی صفوں سے ہمدرد مل جاتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مشکل سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، دل ہارنا نہیں چاہیے، مشکل جتنی بھی بڑی ہو، وہ بالآخر کٹ ہی جاتی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، آندھیاں، طوفان، جھکڑ بگولے جتنے بھی ستائیں، انسان ثابت قدم رہے تو اللہ تعالی دن بدل دیتا ہے۔ دین کے رستے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقدس ہستی کوئی نہیں ہو سکتی، ان پر بھی سختیاں آئیں تو ہم جیسے کیسے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ دین کے رستے میں مشکلات نہیں آئیں گی؟ سیرت النبی کے ایسے صفحات کو بار بار پڑھنے، بلکہ حرز جان بنانے کی ضرورت ہے۔
غم بھی گزشتنی ہے، خوشی بھی گزشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو