شام کے اسلام پسندوں نے بشار الاسد کی آمریت کا تو تختہ الٹ دیا لیکن دریائے فرات کے مشرقی علاقوں پر کرد قوم پرست ملیشیا اب بھی قابض ہے اور اس کی نئی شامی حکومت میں شمولیت ابھی بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے، جو شامی حکام اور کرد قیادت والی “سوریہ ڈیموکریٹک فورسز” (قسد) کے درمیان الجھا ہوا ہے۔
کرد قائدین نے عوامی طور پر یہ تو کہا ہے کہ وہ اصولی طور پر شام کی سرزمین کی وحدت کے حامی ہیں اور (قسد) شام کی نئی فوج میں ضم ہونے کے لئے تیار ہے تاہم وہ اس کے ساتھ کچھ ایسی شرائط رکھتے ہیں جو نئی حکومت کے لئے قابل قبول نہیں ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے اب تک ایسی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، جو شام کی سرزمین کی وحدت اور اس کی خودمختاری کو ثابت کرے۔ وہ اس طرح برتاو کر رہے ہیں، جیسے وہ ایک ایسے علاقے پر قابض ہیں، جو شامی سرحد سے باہر ہو، کردوں کا تقریباً ایک تہائی شامی سرزمین پر قبضہ ہے اور ان علاقوں کے قدرتی وسائل پر مکمل قبضہ جمانا چاہتے ہیں، جہاں شام کے بیشتر تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشرقی فرات کے جو علاقے شمال مشرقی شام میں واقع ہیں، ان میں مختلف نسلی گروہ موجود ہیں اور یہاں کردوں کی اکثریت نہیں ہے۔ اس علاقے میں عرب، کرد، آشوری اور سریانی لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں کی آبادی کے بارے میں درست اور تازہ اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ عربی کمیونٹی میں کرد پارٹی “اتحاد دیموکریسی” کی پالیسیوں اور رجحانات کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، کیونکہ یہ پارٹی شمالی مشرقی شام کے علاقوں پر اصل طاقت کے طور پر قابض ہے۔ یہ اپنی حکمرانی کو اپنے ذیلی اداروں اور پالیسیوں کے ذریعے چلاتی ہے، جو دو سطحوں پر تقسیم ہیں۔ ایک فوجی شاخ کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) ہے، جو کہ فوجی شاخ کی نمائندگی کرتی ہے، یہ 2011 میں شامی انقلاب کے آغاز کے بعد قائم ہوئی۔ اس نے مشرقی فرات کے علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا، جس میں بشار الاسد کے سابقہ نظام نے سہولت فراہم کی۔
بعد میں یہ”سوریہ ڈیموکریٹک فورسز” (قسد) کی ریڑھ کی ہڈی بن گئی، جو 2015ءمیں تشکیل دی گئی۔ جبکہ دوسری سول سطح ہے، یہ سطح خودمختار انتظامیہ کے عنوان سے کام کرتی ہے، جسے ابتدا میں “روج آفا فیڈریشن- شمالی شام” کا نام دیا گیا تھا اور بعد میں اسے “شمالی شام کے لیے وفاقی جمہوری نظام” کا نام تبدیل کیا گیا۔ اسے 2013 میں تشکیل دیا گیا، اس کی نگرانی “سوریہ ڈیموکریٹک کونسل” (MSD) کرتی ہے۔ مختصراً ان میں سے ایک کو قسد اور دوسری کو مسد کہا جاتا ہے۔ جبکہ حزب الاتحاد الدیمقراطی کو ترکی کے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کی شامی شاخ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ارکان پارٹی پر غلبہ رکھتے ہیں اور اس کے تمام سول اور فوجی اقدامات میں حاوی ہیں۔
یہ بات ترکیہ کے لیے حساسیت کا باعث ہے، کیونکہ ترکیہ ان تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتا ہے اور ان کے شمالی شام میں موجودگی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ترکیہ کے مطابق، یہ تنظیمیں اس کی جنوبی سرحدوں پر قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور وہ PKK کے خلاف طویل عرصے سے جنگ لڑ رہا ہے، جو 1980ء کی دہائی سے جاری ہے۔ قسد کو شام کی نئی ریاست میں ضم کرنا شامی حکام کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے، جو ریاستی اداروں کی دوبارہ تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر فوجی اور سیکورٹی اداروں کی۔ شامی حکام اور شمالی مشرقی شام کے زیر کنٹرول طاقتوں کے درمیان اختلافات کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1.۔نئی حکومت ملک کی وحدت کے اصول کے تحت ایک متحدہ قومی فوج تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں پیشہ ورانہ فوجی دستے ریاست کے دائرہ کار میں آئیں گے، اس کا مطلب ہے کہ اسلحے کا نظام حکومت کے ہاتھ میں ہوگا اور تمام مسلح گروپوں کو تحلیل کر دیا جائے گا، بشمول “ہیئة تحریر الشام” کے۔ تاہم “قسد” کے رہنما اپنے اسلحے کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور فوج میں ایک متحدہ گروہ کے طور پر شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، یعنی ایک آزاد فوجی حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ملیشیائی ساخت کو تحلیل کرنے سے انکار کرتے ہیں، جس میں غیر ملکی جنگجو، خاص طور پر ترکی کے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے جنگجو شامل ہیں۔ یہ وہ چیز ہے، جسے نئی شامی قیادت مسترد کرتی ہے، کیونکہ وہ نئے فوجی ادارے میں خود مختار گروپوں اور ان کے اسلحے کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے، کیونکہ اس سے فوجی ادارے کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، نئی حکومت غیر شامی جنگجوو¿ں کے علاقے سے نکلنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
2.: مشرقی فرات کے علاقوں پر قابض طاقتیں اپنے فوجی دستوں کو شام کی فوج میں ضم کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں خصوصی انتظامی حیثیت برقرار رکھ سکیں، کیونکہ وہ اسے اپنا جغرافیائی حلقہ سمجھتی ہیں۔ “حزب الاتحاد الدیمقراطی” اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ ہم شامی کردوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جنہیں تاریخی طور پر ظلم کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے قومی حقوق چھین لیے گئے۔ ان طاقتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ان علاقوں میں موجود وسائل میں سے اپنی مخصوص حصہ داری چاہتے ہیں۔ دمشق کی نئی حکومت ان مقامی طاقتوں کو بعض مخصوص خود مختاری دینے کے لیے تیار ہے، جسے غیر مرکزی انتظامیہ کے دائرہ کار میں شامل کیا جائے گا اور اس میں کرد کمیونٹی کے ثقافتی حقوق کے آئینی طور پر تحفظ کی ضمانت دی جائے گی۔ تاہم، ایسی خود مختاری جو وفاقی حکومتی نظام کو چیلنج کرتی ہو، اسے وہ شامی سرزمین اور عوام کی وحدت کے خلاف سمجھتی ہے۔
3۔: “قسد” کی اصل طاقت اس کے جنگجووں کی بڑی تعداد میں نہیں ہے، جو بعض ماہرین کے مطابق تقریباً 80,000 جنگجو ہیں، نہ ہی اس کی طاقت اتحادی افواج کی حمایت پر منحصر ہے، بلکہ اس کی طاقت اس کے پاس موجود اہم معلومات اور کنٹرول کے ذرایع ہے، جن میں وہ جیلیں شامل ہیں، جہاں تنظیم “داعش” کے مشتبہ افراد قید ہیں اور وہ کیمپ بھی جہاں ان کے اہل خانہ مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ “قسد” عراق اور ترکی کے ساتھ طویل سرحدوں پر کنٹرول رکھتی ہے اور عراق اور عراقی کردستان کے ساتھ سرحدی راستوں کا انتظام بھی قسد کرتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ تیل اور گیس کے میدانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی قابض ہے۔ “ہیومن رائٹس واچ” کے مطابق “قسد” “ہول” اور “روج” کیمپوں کا انتظام کرتی ہے، جن میں تقریباً 42,500 افراد موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 18,000 افراد غیر ملکی ہیں اور 60 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ نئی حکومت کا ماننا ہے کہ وہ ان جیلوں اور کیمپوں کا انتظام سنبھال سکتی ہے، جو “قسد” کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہیںاور یہ ذمہ داری شامی ریاست پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اس کام کو انجام دینے کے لیے تمام ضروری وسائل موجود ہیں۔ نئی حکومت نے بین الاقوامی اتحادی قیادت سے “داعش” کے خلاف جنگ کے حوالے سے ان جیلوں اور حراستی کیمپوں کے انتظام کی منتقلی کی درخواست کی ہے، تاکہ انہیں “نئی شامی فوج” کے حوالے کیا جائے، جو اتحادی افواج کی حمایت سے تشکیل پا چکی ہے اور جس نے شامی فوج کے ساتھ مکمل انضمام اور وفاداری کا اعلان کیا ہے۔
4۔: نئی شامی حکومت نے “قسد” کے ساتھ اختلافات کو حل کرنے کے لیے بنیادی آپشن کے طور پر بات چیت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں دونوں فریقوں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئیں، لیکن بعض حکام کا خیال ہے کہ “قسد” وقت خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ امریکی موقف کے واضح ہونے کا انتظار کر سکے، کیونکہ ابھی تک صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کا شام کے بارے میں موقف واضح نہیں ہوا ہے، خاص طور پر “داعش” کے خلاف بین الاقوامی اتحادی افواج کے تحت موجود امریکی افواج کے حوالے سے، جن پر “قسد” کا انحصار ہے۔ دوسری طرف، نئی حکومت کا کہنا ہے کہ کرد مسئلہ ایک داخلی شامی مسئلہ ہے اور اسے قومی شامی وحدت کے دائرہ میں حل کرنا چاہیے، جس میں ان کے حقوق کی قانون اور آئین کے تحت ضمانت دی جائے۔ اس بنیاد پر دمشق نے ترکی سے درخواست کی ہے کہ وہ “قسد” کے خلاف کسی فوجی کارروائی کو ملتوی کرے تاکہ انہیں امن سے بات چیت کرنے کا کچھ وقت مل سکے۔
مستقبل کے امکانات:
یقیناً بہترین حل یہ ہوگا کہ مذاکرات کے راستے پر چل کر کرد ریاست کو نئے شامی انتظام و انصرام میں ضم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ “قسد” کے بعض رہنماوں نے نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دی ہے اور اس کے ساتھ ہی ترک کرد رہنما عبد اللہ اوجلان کے پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں، جن میں غالباً “قسد” کو نئی شامی ریاست میں ضم ہونے، اسلحہ حوالے کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔مگر شامی امور پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ “قسد” نے خود کو شامی مکالمے سے باہر کر لیا ہے، خاص طور پر جب قومی مکالمے کے لیے تیاری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کے بعد آوازیں اٹھنے لگیں جن میں “قسد” سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس میں فعال طور پر شریک ہو، تاکہ ایک ایسا دستور تیار کیا جا سکے جو کردوں کے حقوق کو “مساوی شہریت” کے تصور کے تحت ضمانت دے سکے۔ اس کا مقصد “قسد” کو اپنے غیر حقیقی مطالبات سے دستبردار کرانا اور وفاقی نظام کا مطالبہ واپس لینے کی طرف راغب کرنا ہے، جو حزب عمال کردستانی (PKK) کی قیادت سے جڑے دھڑے کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے مترادف ہوگا۔
یہ امکان بھی ہے کہ حزب اتحاد دیموکراتی کے رہنما اپنے اوپر ہونے والے دباو خاص طور پر کردستان اور ترکیہ کے رہنماوں کے دباو میں آ کر کچھ ابتدائی اقدامات کریں، جیسے کہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مشترکہ انتظام کی قبولیت، بشمول داعش کے جنگجووں کے قید خانے، ان کے خاندانوں کے کیمپ اور سرحدی گزرگاہوں کی مشترکہ نگرانی۔ آخرکار، “قسد” کے نئی شامی حکومت میں انضمام کا مسئلہ عالمی، علاقائی اور مقامی توازنوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، نئی شامی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرے، جو شمال مشرقی شام میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے ہوئے ہے اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت کی بنیاد پر کسی فیصلے کی منتظر ہے۔