مسئلہ فلسطین کا پائے دار حل تلاش کرنے کا وقت

غزہ جنگ بندی معاہدہ اسرائیل کے لیے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جس کو وہ اب اگل سکتا ہے نہ نگل سکتا ہے۔ہفتے کے روز 6 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں حماس نے اپنے کئی اہم رہنماؤں سمیت 600 قیدی اسرائیلی جیلوں سے آزاد کروالیے جسے فلسطینی مقاومت کی بہت بڑی کامیابی اوراسرائیل کی واضح ہزیمت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

نیتن یاہو حکومت کو اس پر زبردست تنقید کا سامنا ہے اور وہ اب اپنی خفت چھپانے کے لیے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کے درپے ہے۔دوروز پہلے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے جنوبی علاقے بات یام میں خالی بسوں میں دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 3بسیں جل کر راکھ ہوگئیں۔ اس واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں ”دہشت گردی کے مراکز” کے خلاف ایک سخت آپریشن کرے۔ جمعے روز نیتن یاہو خود طولکرم مہاجر کیمپ پہنچا اور وہاں تعینات صہیونی فوج کو فلسطینیوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے ہلا شیری دی مگر خود اسرائیل کے اندر اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور وہاں کے سیاسی حلقوں نے کہا ہے کہ نیتن یاہو اب صرف اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بچانے کی خاطر غزہ میں دوبارہ جنگ شروع کرنے اور مغربی کنارے میں آپریشن کی بات کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو کے لیے مزید بری خبر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زبردست عالمی ردعمل اور عرب ممالک کی جانب سے صاف انکار کے بعد غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے اپنے منصوبے پر بھی یوٹرن لے لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنی اس تجویز پر زبردستی نہیں کریں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کو خالی کرواکر فلسطینیوں کی مقاومت کو ختم کرنے کا صہیونی خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر اسرائیلی حکومت سب سے زیادہ مشکل میں ہے کیونکہ اپنے باقی دو تہائی قیدیوں کو چھوڑ کر دوبارہ جنگ کی طرف جانا بھی اس کے لیے آسان نہیں ہے جبکہ باقی قیدیوں کی رہائی کے بدلے ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرنا اور غزہ کے اندر امدادی سامان کو بھی مسلسل داخل ہوتے دیکھنا بھی اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ مشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ نتین یاہو اپنی افتاد طبع اور ذاتی مفاد کے پیش نظر غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں تاہم اسرائیل میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس کے حق میں نہیں ہے اور شاید اسرائیلی فوج میں بھی مزید جانی نقصانات اٹھانے کی ہمت باقی نہیں ہے۔اوپر سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طنطنہ بھی کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے اور امریکی معیشت بھی مزید جنگوں کو بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی ۔اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ امریکا مصر،اردن اور سعودی عرب جیسے ممالک کی جانب سے پیش کیے جانے والے” متبادل پلان” پر اکتفا کرلے گا جس کے تحت غزہ میں مقامی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اتھارٹی قائم کی جائے گی جو غزہ کی تعمیر نو کی نگرانی کرے گی۔

لیکن ظاہر ہے کہ ایسا کوئی بھی انتظام عارضی نوعیت کا ہی ہوگا جس سے مشرق وسطی میں پائے دار امن کے قیام میں کوئی خاص مدد نہیں مل سکتی۔اس مقصد کے لیے اب دیگر عالمی قوتوں بالخصوص روس اور چین کو آگے آنا ہوگا اور مشرق وسطی کے تنازع کے مستقل حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اس پر دنیا کے امن و استحکام کے مستقبل کا انحصار ہے۔امریکا اور مغربی ممالک اس معاملے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غزہ میں پندرہ ماہ تک جاری رہنے والی جنگ نے مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا کے انسانی حقوق، مساوات اور خواتین کے تحفظ سے متعلق پروپیگنڈے کو مکمل طور پر آشکارا کر دیا ہے۔ دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہوتی جا رہی ہے کہ اسرائیل دراصل دہشت گردی کا ایک اڈہ ہے جسے سفید فام اقوام نے عربوں اور ترکوں کے وسائل چھیننے کے لیے استعمال کیا اور اب امریکا دہشت گردی کے اس اڈے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ان تمام ممالک کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ روایتی تہذیبوں کے حامل ہیں اور امریکی قیادت میں سفید فام اقوام کے غلبے کو عالمی استحصال کے طورپر جانتے اور سرمایہ دارانہ نظام کو قدیم ڈاکہ زنی اور قزاقیت کا تسلسل خیال کرتے ہیں۔ غزہ کے مختصر سے رقبے میں امریکا، یورپی ممالک اور دہشت گرد اسرائیل کا پندرہ ماہ تک مصروفِ جنگ رہنا اور اپنی ناکامی کا غصہ عام شہریوں پر اتارنا دراصل عالمی تہذیب اور سرمایہ دارانہ کلچر کی سیاسی و عسکری شکست کی علامت ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ تہذیب ٹیکنالوجی کی قوت رکھنے کے باوجود کھوکھلی ہے اور اس کا فسوں محض دھوکا ہی ہے۔

بہت سے عالمی مبصرین کا شروع دن سے یہ ماننا ہے کہ حماس کے7اکتوبر کے طوفان اقصیٰ آپریشن نے دنیا کا منظرنامہ بدل دیا ہے۔اس سے پہلے مغربی قوتوں نے روس کو یوکرین میں بہت حد تک گھیر لیا تھا اور یوکرین روس کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھر رہا تھا،مگر 7اکتوبر کے بعد دنیا کی توجہ یوکرین سے ہٹ گئی اور یوکرین کے لیے امریکا اور مغرب کی امداد میں بھی بہت کمی آئی جس کے نتیجے میں آج وہاں جنگ کا پانسا پلٹتا دکھائی دے رہا ہے۔امریکا جو یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ کے لیے اربوں ڈالرز کی امداد دے رہا تھا،اب اس نے اس امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اورڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ سلسلہ جنبانی جوڑنے میں مصروف ہیں۔روس کے پاس صدیوں کے بعد یہ موقع آیا ہے کہ وہ یورپی ممالک کا قدیم ادھار چکا سکتا ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے، لہٰذا سفید فام اقوام کے غلبے اور دہشت گردی سے تنگ دنیا کے ہر امن پسند شخص کی تمنا ہوگی کہ روس اور چین اس ظالم اور سفاک گروہ سے حساب کتاب چکانے میں پوری دنیائے انسانیت کی قیادت کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روس اور چین مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ان ممالک کو اپنے قریب لائیں جو کہ امریکی بالادستی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوں، کیوں کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک اگرفلسطین کے محاذ اور یوکرین کی جنگ سے نجات پاگئے تو وہ پوری قوت سے روس اور چین کو گھٹنوں کے بل بٹھانے کی کوشش کریں گے۔ تاریخ میں ایسے لمحات بار بار نہیں آتے جب کسی غاصب قوت کے جبر اور غلبے کو توڑنے کے مواقع یکجا ہو چکے ہوں۔ روس اور چین کو مسئلہ فلسطین کے حل میں قائدانہ کردار ادا کرکے عالمی سیاست میںاپنا اثرورسوخ ثابت کرنا چاہیے۔