ترکیہ اور پاکستان، یکجان دو قالب!

آخری قسط:
طیب اردوان کے اقتدار میں آنے کے بعد ترکی میں اتنی زیادہ کنسٹرکشن ہوئی کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار سے پہلے پورے ترکی کی عدلیہ کی کورڈ بلڈنگ 5 لاکھ میٹر اسکوائر بنتی تھیں، طیب اردوان نے 2012ء تک یہ رقبہ 25 لاکھ میٹر اسکوائر تک پہنچادیا۔ 5 سے 6 گنا صرف سرکاری عدالتوں سے متعلقہ عمارتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح پرانے اسکولوں کے کلاس رومز میں 2 لاکھ 48 ہزار کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پرانے اسکولوں میں ایک کلاس میں 30 سے 35 بچے پڑھتے تھے، اب اسی کلاس میں 17 سے 25 بچے ہوتے ہیں۔ کم بچوں کی وجہ سے ٹیچر کی توجہ اور زیادہ بڑھ گئی اور اس کی ٹیچنگ کوالٹی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جو ٹیچر پہلے 40 کے قریب بچوں کو سنبھال رہا تھا، اب وہی ٹیچر 20 بچوں کو سنبھالتا ہے۔ اس دوران یورپ کے متعدد ممالک قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانکس سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کاتیار کردہ ہوتا ہے۔
یورپ میں آنے والے اقتصادی بحران کے فوری بعد یورپ اور امریکا بھر میں یونیورسٹی اور اسکول فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیاتھا۔ اس کے برعکس طیب اردوان نے سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ یونیورسٹی اور اسکول کی تعلیم مفت ہوگی اور تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ ترکی میں تعلیم کا بجٹ بڑھا کر دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے 35ہزار لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ انہی سنہرے کارناموں کی بدولت آج طیب اردوان عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ یہ ہیں وہ کارنامے جن کی بدولت آج کا ترکی ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود اسلامی دنیا کا لیڈر بننے جارہا ہے۔ طیب اردوان نے ملک و قوم کی خدمت کرکے عوام کے دل جیتے۔ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے کسی قسم کی رعایت حاصل نہ کی۔

اب ترقی کی راہ میں کسی کو بھی کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔ ہم ملک قوم کے وسیع تر مفاد میں سمجھتے ہیں کہ یہاں بھی صدارتی نظام ہی ہونا چاہیے۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی اسی نظام پر غور و فکر کررہی ہے۔ جلد یا بدیر ہمیں اسی نظام پر آنا پڑے گا۔ ا گر ہمارے سیاستدان اور حکمران چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت چلے تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ طیب اردوان کی طرح ملک و قوم کی خدمت کریں۔ وہ غیرملکی آقائوں پر تکیہ کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کرکے ان کے دل جیتیں۔ کرپشن سے توبہ کریں۔ ملک و قوم کا لوٹا ہوا مال واپس لائیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بادشاہ بننے کا خواب دیکھنے سے پہلے وہ طیب اردوان کی طرح عوام کو بنیادی ضروریات و سہولیات ڈلیور کریں۔
ہر قسم کے گندگی کے ڈھیر کو باغیچے میں تبدیل کریں۔ کرپشن فری ملک بنائیں۔ پھر دیکھیں کوئی بھی ملکی اور عالمی طاقت آپ کو اقتدار سے باہر نہیں کرسکے گی۔ ترکی پوری مسلم دنیا اور ان کے مذہبی لیڈروں کے لیے کیس اسٹڈی ہے۔ مسلم حکمرانوں اور مذہبی سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ ترکی سے سیکھنے کی بتدریج کوشش کریں۔ ہم نے ترکی کا دس روزہ دورہ اسی نیت سے کیا تھا۔ ترکی نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ طیب اردوان اپنے خلاف اور اپنے ملک کے خلا ف ہونے والی عالمی اور ملکی سازشوں کو کس حکمت عملی کے تحت ناکام بنارہے ہیں یہ بھی سیکھنے کی بات ہے۔ ترکی سے سب سے اہم بات سیکھنے کی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ملک میں جمہوریت مضبوط ہو۔ ترک فوج سیکولر شمار ہوتی ہے۔ ترکی پر ہمیشہ فوج ہی کا تسلط رہا ہے۔ اتاترک ایسا نظام بناگئے تھے آندھی ہو یا طوفان، ترکی کا نظام نہ بدلے، لیکن سلام ہے ترکی کے اسلام پسندوں کو انہوں نے بتدریج دانش مندی، ہوشیاری اور عوام کی خدمت کرکے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ ہمت نہیں ہاری۔ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جڑیں عوام میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ترک افواج نے سیاسی جماعتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ترک قانون کے مطابق ایوان صدر میں خاتون اول بھی اسکارف نہیں پہن سکتی تھی، لیکن زمانے نے دیکھا عبداللہ گل کی بیوی ”خیر النساء گل” اسکارف اوڑھ کر داخل ہوئی۔
ترک افواج ہمیشہ ترکی کے سیاست دانوں پر شب خون مارا کرتی تھی۔ ترکی میں جنرل اس قدر طاقتور تھے کہ کسی بھی منتخب وزیراعظم اور صدر کو مارشل لا لگائے بغیر استعفا دینے پر مجبور کردیتے تھے۔ کوئی بھی منتخب نمایندہ کسی جنرل پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ کسی کا احتساب نہیں ہوسکتا تھا، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا نے دیکھا کہ ترکی کی منتخب حکومت نے 64 اعلیٰ افسران کو گرفتار کرلیا تھا۔ وہ منتخب سیاسی جماعت کے خلاف سازشیں کررہے تھے۔ ترک حکومت عنقریب پارلیمنٹ میں آئینی اصلاحات کا ایک بل بھی لارہی ہے۔ اس کے بعد ترکی میں مکمل اور مضبوط جمہوریت قائم ہوجائے گی۔ اگر موجودہ صدر بقیدحیات رہتا ہے تو پھر ان شاء اللہ دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوگااور پھرہر طرف ترکی ہی ترکی ہوگا، اور پاکستان بھی ترکی بہ ترکی ترقی ہی کرتا چلاجائے گا۔ یاد رکھیں کہ ترکی اور پاکستان یکجان دو قالب ہیں۔