قاضی ابویوسف

امام ابویوسف رحمہ اللہ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، مگر دل میں پڑھنے لکھنے کا سودا سماگیا۔ گھر سے والدہ کام کاج کے لیے بھیجتیں اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں جاپہنچتے۔

ایک دن آپ کے والد نے سمجھایا: بیٹا! ابوحنیفہ کی طرف زیادہ آنا جانا نہ رکھو، کیونکہ ان کی روٹی چپڑی ہوئی ہے، ان کے پاس مال و دولت ہے اور تم نان جویں کے محتاج ہو۔ اپنے والد کی یہ بات سن کر امام ابویوسف نے زیادہ وقت روزگار کی طلب میں لگانا شروع کردیا اور اپنے استاد کے پاس جانا کم کردیا۔ امام ابوحنیفہ نے دیکھا کہ ابویوسف نہیں آرہے تو انہوں نے پتہ کروایا اور دیگر نوجوانوں سے پوچھا کہ ابویوسف کیوں نہیں آرہے؟ کچھ دنوں بعد امام ابویوسف دوبارہ سبق میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں بلایا اور پوچھا: اتنے دن کہاں رہے؟ آپ نے عرض کیا: روزگار زندگی میں مصروفیت اور والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں مصروف رہا۔ اس کے بعد امام صاحب کا علمی حلقہ لگا اور لوگ گھروں کو واپس چلے گئے تو امام ابوحنیفہ نے ایک تھیلی آپ کو دی اور کہا کہ اپنی ضروریات پر خرچ کرلو۔ ساتھ ہی یہ فرمایا: علمی حلقے میں آتے رہو، جب یہ درہم ختم ہوجائیں تو مجھے بتادینا۔ امام ابویوسف کہتے ہیں کہ میں حلقے میں حاضر ہوتا رہا اور کچھ ہی وقت گزرا ہوگا کہ امام ابوحنیفہ نے مجھے ایک اور تھیلی پکڑا دی، جس میں سو درہم تھے۔ یوں پچھلی رقم ختم ہونے سے پہلے ہی امام صاحب مجھے مزید رقم دے دیتے تھے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے بتایا ہوکہ پیسے ختم ہوگئے ہیں۔
امام ابویوسف بھی ایسے طالب علم ثابت ہوئے کہ جن پر صدیاں فخر کرتی ہیں۔ آپ نے علم میں اتنی مہارت حاصل کی کہ اپنے استاد امام ابوحنیفہ کے جانشیں کہلائے۔ آپ کے علمی رتبے کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جن مسائل میں اپنے استاد سے اتفاق کرتے ہیں، اس میں کہا جاتا ہے کہ ”شیخین” کی رائے یہ ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ تو فرماتے تھے: قاضی ابویوسف اور امام محمد نے دو تہائی مذہب میں اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ امام ابن عابدین شامی کہتے ہیں: دونوں شاگردوں نے ایک تہائی مسائل میں اپنے استاد سے اتفاق نہیں کیا۔
امام ابویوسف اپنے استاد امام ابوحنیفہ کی زندگی میں 17 سال تک تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے۔ آپ کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور امام مالک رحمہ اللہ سے علم حدیث حاصل کیا۔ عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں انہیں قاضی مقرر کردیا گیا۔ آپ کے علم، تقوی اور حق گوئی کی شہرت تھی۔ مہدی کے بعد ہادی کے دور میں بھی آپ قاضی رہے۔ لیکن جب ہارون الرشید کا دور حکومت آیا تو انہوں نے آپ کو ”قاضی القضاة” یعنی چیف جسٹس مقرر کردیا۔ اسلامی تاریخ میں پہلی بار چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور اس عہدے پر فائز ہونے والی شخصیت فقہ حنفی میں امامت کے درجہ کو پہنچی ہوئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ امام ابویوسف جب قاضی القضاة بنے، عباسی دور حکومت کا مضبوط حکمران ہارون الرشید آپ سے اہم معاملات میں مشورے کرتا، تین براعظموں پر پھیلی عباسی سلطنت پر آپ کے فیصلے نافذ ہوتے، اس سے فقہ حنفی کو ایک عملی میدان بھی دستیاب ہوا۔ فقہ حنفی کی جزئیات اسی حیرت انگیز تجربے کی روشنی میں طے پائیں۔ کوئی بھی علم جب تک عملی میدان میں آزما نہ لیا جائے، تب تک اس میں بہت سے پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔ لیکن فقہ حنفی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی جزئیات پر لاکھوں مربع میل پر پھیلی عباسی حکومت چلتی رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا زیادہ عملی تجربہ ہوگا، اتنا ہی علم بھی پختہ ہوگا۔
آج پاکستان میں موجود مدارس کی تعداد 45 ہزار سے زیادہ ہے، ان میں قدیم فقہ پڑھائی جاتی ہے، عربی علوم پر محنت کروائی جاتی ہے، قدیم دور کے مسائل ازبر کروائے جاتے ہیں، کلاس روم کی حد تک جس قدر ممکن ہے، علمی رسوخ پیدا کیا جاتا ہے جس کی اپنی جگہ ضرورت ہے۔ کمی ہے تو صرف اتنی کہ مارکیٹ میں رائج معاملات کی مشق نہیں کروائی جاتی۔ اس لیے کہ کوئی بزنس مین اپنے قریب کے مدرسے میں جاکر یہ نہیں بولتا کہ ہمیں فلاں فلاں جدید مسائل میں شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ آپ حضرات اپنے بچوں کو مشق کروانے کے لیے ہمارے پاس لائیں۔ ہمارے مسائل ان کو بتاکر ان کے شرعی حل بتائیں تاکہ طلبہ کو فیلڈ کا تجربہ ہو۔ وہ جب پڑھ کر اور فارغ التحصیل ہوکر نکلیں تو کسی سوال پوچھنے والے کو دیکھ کر گبھرائیں نہیں، انہیں پتہ ہو کہ تجارت کے جدید مسائل یہ ہیں، اسٹاک مارکیٹ میں کارباور ایسے ہوتا ہے،صرافہ بازار میں اس طرح کا لین دین رائج ہے، کرپٹو کرنسی اس چیز کو کہتے ہیں،آن لائن بزنس میں یہ یہ مسائل ہیں، حج کا عملی طریقہ یہ ہے، عمرے کا عملی طریقہ یہ ہے، نکاح پڑھانے کا عملی طریقہ یہ ہے، شفعہ ایسے ہوتا ہے، اجارہ کی جدید صورتیں یہ یہ ہیں، پراپرٹی میں لین دین کا یہ رواج ہے!!! وغیرہ وغیرہ۔
تو پھر آپ اپنی تجارت سے متعلق شرعی رہنمائی کب حاصل کررہے ہیں؟