وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آئندہ پانچ سالوں میں برآمدات کو ساٹھ ارب ڈالر تک لے جانے کےلئے مختلف وزارتوں کو حکمت عملی بنانے کی ہدایات دی ہیں۔ برآمد ات کو ساٹھ ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف دراصل اڑان پاکستان منصوبے کے مطابق ہے جس پر موجودہ حکومت بہت زور دے رہی ہے ۔
بلاشبہ برآمدات میں اضافہ ملکی ترقی ، معاشی بحران کے خاتمے اور قرضوں کے بوجھ سے نجات پانے کے لیے اہم ترین حیثیت رکھتاہے اور حکومت کی سنجیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس ہدف کے حصول کے لیے ہر ممکن ذریعہ بھی اختیار کررہی ہے تاہم دوسری جانب اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط ہیں جو مہنگائی میں مسلسل اضا فے کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ٹیکسوں میں لگاتار اضافہ کیا جارہاہے جیسا کہ وزیر خزانہ اورنگزیب نے حالیہ گفتگو میں کہا ہے کہ ٹیکسوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جارہاہے ۔ ٹیکسوں میں اضافے کی بنیادی وجہ دراصل قرضوں کا بھاری بوجھ ہی ہے جو اس وقت ایک سو تیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
یہ امر معاشی ماہرین اور خود آئی ایم ایف کے نزدیک بھی قابلِ تسلیم ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی بنیادی وجوہ میں بیرونی اور داخلی قرضوں کا بوجھ اولین حیثیت رکھتاہے۔ وسائل کا غلط استعمال ، دولت کا ضیاع ، غیر پیداواری اخراجات ،ناقص منصوبہ بندی اور ٹیکسوں کے نظام میں خرابی قرضوں میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ سب سے مہلک چیز سود ہے جس کی وجہ سے قرضوں کاحجم بڑھتا چلا جارہاہے اور افراطِ زر کی وجہ سے مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہوچکا ہے۔توانائی کا بحران اور درآمدات کی بلند قیمتیں تجارتی خسارے کو بڑھا رہی ہیں اور یہ معاملہ برآمدات میں کمی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
ان حالات میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ٹیکسوں کے نفاذمیں اضافہ کرکے حکومت آخر کس طرح برآمدات میں اضافہ کرے گی؟ اس سوال کا جواب اگر اڑان پاکستان منصوبے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آئی ٹی سے متعلق شعبوں اور زراعت پر تو جہ دی جارہی ہے ۔ کچھ نہ کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے کے مقابلے میں یہ کوششیں بہتر ہے لیکن یہ طویل مدتی حکمتِ عملی اور مسلسل جدو جہد کا متقاضی ہے۔ اس حوالے سے پوری قوم کو متفق ہونا ہوگا ۔یہ راستہ ہر گزآسان نہیں۔ تحقیق ، تجربات، بنیادی ڈھانچے کی اصلاح، قوانین سازی، نظامِ انصاف کی شفافیت، بدعنوان اور بد دیانت لوگوں کا نظام سے اخراج اور عدل کے قیام کے بغیر آگے بڑھنا دراصل دائروں میں سفر کے مترادف ہی ثابت ہوگا۔
سرکاری محکموں کی نااہلی، بدعنوان افسران کی فوج ظفرِ موج،رشوت کے عمومی کلچر اور نظامِ انصاف کی خستہ ترین حالت کسی بھی حکومت کی ناکامی کےلئے کافی ہے۔ بدعنوانی، نااہلی، غفلت اور شاہانہ اخراجات جیسی بیماریوں سے جب تک نظام کو صاف نہیں کیا جاتا، عدل اور دیانت داری کو فروغ نہیں دیاجاتا،نہ تو نجی سطح پر سرمایہ کاری کا فروغ ہوسکتاہے اور نہ ہی چھوٹے کاروباروں کو ترقی دے کر ملکی معیشت کو درجہ استحکام تک پہنچایا جاسکتاہے۔ چین، ترکیہ، جنوبی کوریا اور ملیشیا جیسے ممالک نے جو معاشی پیش رفت اور اقتصادی ترقی کی ہے اس میں نجی شعبے کی کاوشوں، چھوٹے کاروباروں اور سرکاری اداروں کی طرف سے ان کی بھرپور سرپرستی کو بنیادی دخل ہے ۔ لوگوں کی تربیت کی گئی۔انھیں سیکھنے اور کام کرنے کے مواقع دیے گئے اور ممکنہ حدتک نظامِ انصاف ان لوگوںکو آگے بڑھنے میں مدد فراہم کی۔ ہمیں دینِ اسلام نے بھی اس حوالے سے واضح ہدایا ت دی ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دولت کے عدمِ ارتکاز، سود کی ممانعت ، زکوٰة و عشر کے قیام ، صدقہ و خیرات کے ذریعے کمزور اور بے وسائل لوگوں کی داد رسی اور انھیں ذراعت و تجارت میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرنا اور ذخیرہ اندوزی سمیت دیگر معاشرتی ومعاشی خرابیوں کا تدارک سماج میں امن و سکون ، تحفظ اور خیرخواہی کو پیدا کرتاہے جو معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی بڑی وجہ بن جاتی ہے۔
راستے پر امن ہوں، لوگ بلا خوف و خطر رزقِ حلال کما سکیں،ریاست لوگوں کو بلا امتیاز تحفظ فراہم کرے تو معاشی سرگرمیوں کی وسعت اور رفتار فطری انداز میں بڑھتے ہیں اور معاشی استحکام گویاخود بخود وجود میں آجاتاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اڑان پاکستان منصوبے میں اسلامی معاشی ماہرین سے بھی مسلسل مشاورت کی جائے ، بینکنگ کے نظام کو ممکنہ حد تک سود سے پاک کیا جائے، ٹیکسوں کے نفاذ سے زیادہ زکوٰة و عشر کے قیام کی اہمیت ہے۔ لوگوں کو صحت مندانہ طرزِزندگی اختیار کرنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے، نظامِ تعلیم کو ہنر اور صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ وابستہ کیاجائے ۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کےلئے نئے آبی ذخیروں، ہوا اور شمسی توانائی اور دیگر ذرائع سے کام لیا جاسکتاہے تاہم ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ ، مزید مہنگائی اور عام لوگوں کو بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کردینا معاشی مسائل کا حل کبھی نہیں ہوسکتا ۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی معاشی اداروں کی اجارہ داری سے نجات پانا ،ملکی معاشی استحکام کی اولین شرط ہےم اس کے بغیر اڑان پاکستان ایک ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا ۔
پنجاب کی ترقی کا نیا منصوبہ:
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب کی ترقی کے لیے شہروں میں نکاسی آب سے لے کر پینے کے پانی کی فراہمی ،ماڈل دیہات کے قیام، نئی سڑکوں کی تعمیر ،پانی کے چھوٹے ذخائر کی منصوبہ بندی اور صاف ستھرا پنجاب کے منصوبے کو مزید ترقی دینے کا فیصلہ کیاہے ۔ پنجاب کی ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی بلاشبہ خوش آئند ہے تاہم ضرورت اس امرکی ہے کہ اولین ترجیح نظام کی اصلاح ہو۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو کم تر سطح پر لایا جائے۔ چھوٹے کاشت کاروں کا خیال رکھا جائے۔ جرائم کے انسداد پر بھرپور توجہ دی جائے۔محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے بطورِ وزیر اعلیٰ اب تک اعلیٰ کارکردگی پیش کی ہے۔ ان کے قائم کردہ منصوبے درست بنیادوں پر قائم رہے تو پنجاب کے عوام کو کافی سہولیات میسر آجائیں گی اور یہ خدمات دوسرے صوبوں کے لیے بھی ایک اچھا نمونہ ثابت ہوں گی۔